• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمیں روزانہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، کرپشن، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ جیسی ہولناک خبریں سننے کو ملتی ہیں ۔مگر ان برے حالات میں بھی کچھ اچھی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں جن میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان کا شمار انفرادی چیریٹی میں دنیا کے سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے جہاں انفرادی طور پر زکوٰة اور خیرات کی مد میں دنیا میں سب سے زیادہ چیریٹی دی جاتی ہے اور ہم ناروے اور سوئیڈن جیسی فلاحی ریاستوں کے ہم پلہ ہیں۔ انفرادی طور پر پاکستانی کھلے دل کے لوگ ہیں اور غریبوں کی مدد کرنا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں مگر کاروباری اداروں کی جانب سے کارپوریٹ سوشل رسپونسبلیٹی کے تحت سماجی ذمہ داروں اور فلاح و بہبود کے منصوبوں میں پاکستان دنیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے جبکہ اس حوالے سے امریکہ اور یورپ سرفہرست ہیں جہاں کاروباری ادارے CSR کی مد میں اربوں ڈالر مختص کرتے ہیں۔ بل گیٹس اور ان کی اہلیہ ملنڈا اپنے ادارے کے منافع سے 36/ارب ڈالر کی رقم CSR کی مد میں دے چکے ہیں۔ بھارت میں بھی CSR کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور حال ہی میں وہاں کے کچھ بڑے کاروباری اداروں نے اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ جو اربوں ڈالر بنتا ہے CSR کی مد میں فلاحی منصوبوں پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی ایک مثال وہاں کی ایک کاروباری شخصیت عظیم پریم جی ہیں جنہیں بھارت کا بل گیٹس بھی کہا جاتا ہے، ان کے ادارے نے گزشتہ دنوں غربت کے خاتمے کیلئے 2.2 بلین ڈالرز مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ CSR کے حوالے سے پاکستان میں حالیہ سالوں میں بعض اداروں نے پہل کی ہے۔ حال ہی میں ایک فرٹیلائزر کمپنی نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں انجمن ہلال احمر پاکستان کے ساتھ مل کر ڈھائی سو گھر بنائے ہیں اور ان گھروں کی تعمیر کے تمام مراحل میں وہاں کے مقامی افراد کو مشاورت میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک بہتر انداز ہے ورنہ آسان کام یہ تھا کہ بے گھر لوگوں میں رقم بانٹ دی جاتی اور کم محنت اور کم وقت میں یہ سماجی ذمہ داری پوری ہونے کا اعلان ہو جاتا۔ اس کے علاوہ بینک، ملٹی نیشنل کمپنیاں، آئل اینڈ گیس سیکٹر کے بڑے ادارے بھی اپنی آمدنی کا ایک فیصد CSR کی مد میں فلاحی کاموں کیلئے مختص کر رہے ہیں۔
CSR کی اہمیت و افادیت کو پاکستان میں اجاگر کرنے کیلئے گزشتہ دنوں نیشنل فورم فار انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ نے پانچویں انٹرنیشنل کانفرنس اورCSR ایوارڈ تقریب کا انعقاد کیا جس میں CSR کے حوالے سے ملک کے بڑے اداروں کے سربراہان اور نمائندوں کو بحیثیت مقرر مدعو کیا گیا تھا۔ دن بھر جاری رہنے والی اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ کانفرنس ہال سے متصل ملک کی سماجی و فلاحی تنظیموں اور این جی اوز نے اپنے اسٹال لگارکھے تھے۔ کانفرنس میں میری ایڈ لڈ لپروسی سینٹر کی سربراہ رتھ فاؤ جنہوں نے پاکستان میں لپروسی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنے مشن کو پورا کرنے کے بعد پاکستان میں ہی ٹھہر گئیں کے علاوہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر حاجی غلام قادر شیرانی، چیئرمین NFEH ڈاکٹر قیصر وحید، صدر محمد نعیم قریشی، جاوید جبار، اختیار بیگ جیسی شخصیات موجود تھیں۔ اس کانفرنس میں مجھے بھی بحیثیت مقرر مدعو کیا گیا تھا۔میری گفتگو کا عنوان ”CSR کے این جی اوز پر اثرات“ تھا۔ میں نے اپنی تقریر میں شرکاء کو بتایا کہ CSR ایک عبادت کی مانند ہے۔ آج کے زمانے میں انسانیت نے بحیثیت مجموعی اس ضرورت کو محسوس کر لیا ہے کہ اربوں کا منافع کمانے کے ساتھ ساتھ ان بستیوں میں غربت افلاس جہالت اور بے ہنری کو بھی ختم کرنا چاہئے جہاں ان کے بڑے بڑے منافع بخش پلانٹس لگے ہوئے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں یا کاروباری ادارے محض منافع کی ایک یا دو فیصد رقم ضرورت مندوں میں تقسیم کرکے فارغ ہو جائیں بلکہ اصل ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اپنے سالانہ منصوبوں میں CSR کیلئے بھی باقاعدہ اور طویل المدتی منصوبہ بندی کرے۔
CSR کے این جی اوز پر اثرات کے حوالے سے میں نے شرکاء کو ایک بڑے ہوٹل اور قومی ایئر لائن کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ہوٹل میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان کے ساتھ CSR کی مد میں ہمارے ان لاعلاج بچوں جن کی آخری خواہش اچھا کھانا کھانے کی ہے کی تکمیل کر رہا ہے۔ اس طرح اس ہوٹل میں جمعہ اور اتوار کو جب خصوصی ڈنر کا اہتمام ہوتا ہے تو وہاں ایک ٹیبل میک اے وش پاکستان کے بچوں کیلئے مختص کر دی جاتی ہے جہاں لاعلاج بچے مدعو کئے جاتے ہیں۔ یہ ہوٹل اب تک اس سلسلے میں 100 سے زائد لاعلاج بچوں کی خواہشات کی تکمیل کر چکا ہے۔ اسی طرح قومی ایئر لائن بھی میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان کے ساتھ CSR کی مد میں ایسے لاعلاج بچے جن کی آخری خواہش فضائی سفر یا پائلٹ بننے کی ہو پورا کر رہی ہے اور وہ اب تک 5 بچوں کو پائلٹ بنانے اور 25 بچوں کی فضائی سفر کی خواہشات کو پورا کر چکی ہے۔ آج ان میں سے کئی بچے ہم میں نہیں مگر ہمیں خوشی ہے کہ یہ بچے اس دنیا سے کوئی خواب لئے رخصت نہیں ہوئے۔ CSR کی مد میں ان بچوں پر کچھ خرچ کرکے ان اداروں کی آمدنی میں کمی تو نہیں آئی مگر لوگوں نے ان اداروں کی کاوشوں کو ضرور سراہا۔ میں یہاں ان اداروں جن میں پی ایس او، پی پی ایل، آئی سی پی اور نیشنل بینک جیسے ادارے شامل ہیں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کے تعاون سے ہمارا ادارہ بچوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیر رہا ہے مگر میں کئی ایسے کاروباری اداروں سے بھی واقف ہوں جو ٹیکس بچانے کیلئے اپنی بیلنس شیٹس میں CSR کی مد میں بڑی رقم ظاہر کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ایسا نہیں کرتے۔ اس لئے کاروباری اداروں کی جانب سے کارپوریٹ سوشل رسپونسبلیٹی کے منصوبوں پر اخراجات میں شفافیت اور احتساب بہت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کارپوریٹ اداروں کو CSR بجٹ کے حوالے سے پابند بنائے جبکہ ایف بی آر کو بھی چاہئے کہ وہ ٹیکس لیتے وقت اداروں کو اس وقت تک این او سی جاری نہ کرے جب تک CSR کے تحت چلنے والے منصوبوں کی مکمل چھان بین نہ کر لے کیونکہ محض ٹیکس چھوٹ کیلئے بھرے گئے گوشواروں سے سماج کے ضرورت مند لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان اور انڈس اسپتال کو سماجی خدمات کے شعبے میں ایوارڈ سے نوازا گیا جو ان اداروں کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔
اسلام نے سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی کو مسلمانوں کا مقصد حیات قرار دیا ہے۔ اسلام کے معاشی نظام کا بنیادی مقصد ہی معاشرے کے مستحق و نادار افراد کی کفالت کرنا ہے۔ صدقہ، خیرات اور زکوٰة کے تمام تصورات اس لئے دیئے گئے کہ معاشرے میں کوئی غریب نہ رہے اور بنیادی ضرورتیں ریاست کے ہر فرد کو ملیں مگر انفرادی صدقہ و خیرات سے سماجی ذمہ داری کا وسیع مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ دولت مند اور منافع بخش اداروں کو چاہئے کہ وہ ملک بھر میں ایسے فلاحی منصوبے شروع کریں جن کے ذریعے غرباء کی عزت نفس بھی بحال رہے، وہ کسی شخص کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ہزیمت سے بچ جائیں اور سماج کے کارآمد افراد بن کر ملک کی اجتماعی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔ پاکستان میں اس وقت کم و بیش 250 سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں، یہ کمپنیاں اور مقامی کاروباری ادارے اگر صرف 5 برس تک CSR بجٹ کو پوری دلجمعی کے ساتھ سماجی بہتری کے منصوبوں پر خرچ کریں تو پاکستان میں نہ صرف غربت کی شرح آدھی رہ جائے گی بلکہ اس کا فائدہ ان کمپنیوں اور اداروں کو بھی ہوگا۔
تازہ ترین