• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند روز کے بعض حقائق اور مشاہدات سے یہ رائے قائم کرنے میں بڑی مدد ملی ہے کہ ہمارے 11مئی کو ہونے والے الیکشن کا کرپشن ، فیشن اور کنکشن سے چولی دامن کا ساتھ ہی نہیں بلکہ ان کا باہمی تعلق سنجیدہ سوچ اور عمل کی دعوت بھی دیتا ہے۔ ان میں گہرے تعلق کے بارے میں تازہ شواہد وفاقی محتسب صدر زرداری کے بااعتماد ساتھی اور یونیورسٹی ایام کے میرے سینئر سلمان فاروقی کا انتہائی خاموش مگر نیویارک اور واشنگٹن کا وہ حالیہ طوفانی دورہ ہے جس کی نوعیت اور خبر پاکستانی سفارتخانہ واشنگٹن اور نیویارک قونصلیٹ کو بھی نہ ہوسکی اور میرے محترم سلمان فاروقی نیویارک سے واشنگٹن کے دو روز میں دو پھیرے لگاکر ملاقاتوں اور معاملات کے بعد اسی تیز رفتاری سے واپس پاکستان چلے گئے۔ ایجنڈے کی تفصیلات کا علم تو نہیں لیکن شنید ہے کہ اس کا تعلق پاکستانی الیکشن اور پی پی پی کے امور سے تھا۔ سابق صدر پرویز مشرف کو بھی اپنی پاکستان واپسی سے قبل امریکی کنکشن کی ضرورت محسوس ہوئی لہٰذا وہ سفر کرکے نیویارک پہنچے پھر واشنگٹن گئے ملاقاتوں میں ابتدائی شکل کے بعد دوسرے روز کچھ امریکیوں سے ملاقاتیں کیں، طلب و رسد کے اصول کے مطابق بات چیت کے بعد وہ اپنے امریکی کنکشن سے مطمئن ہو کر دبئی اور پھر سعودی عرب سے ہو کر پاکستان پہنچ گئے جہاں وہ اپنے 9سالہ مطلق العنانی کے دور کو فراموش کرکے اپنے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کا مصنوعی واویلا کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ریاست نیوجرسی کے ایک منتخب اجتماع میں جب میں نے ان سے فوجی آمروں کی تاریخ کے تناظر کا حوالہ دے کر ان کی عوامی عدم مقبولیت کا ذکر کیا اور پوچھا کہ کیا وہ پاکستان کی تاریخ میں عوامی صدر بن کر کوئی اضافہ ریکارڈ کرنے کے درپے ہیں یا بندوق کے سہارے حکومت پر قبضہ کرنے والوں کی عوامی مقبولیت کا نیا باب رقم کرنا چاہتے ہیں۔ میرے اس سوال پر وہ اعلانیہ برہم ہوئے مگر رواداری کے تحت جب بھی نیویارک آئے وہ ضرور ملے اور پاکستان واپسی سے قبل آخری دورہ نیویارک میں بھی سوالات کی تلخی کے ماحول میں تبادلہ خیال جاری رکھا۔ البتہ واشنگٹن کی ملاقاتوں کے بارے میں جاتے ہوئے نیویارک کے راستے خاموشی سے روانہ ہوگئے۔ اسی طرح ہماری اس نگراں حکومت کو بھی امریکی کنکشن اس قدر مرغوب تھا کہ ایک طرف تو عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج کرانے سے انکار کرتے ہوئے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ نگراں حکومت کا مینڈیٹ صرف انتخابات کرانے تک محدود ہے لیکن امریکی کنکشن کیلئے دلکشی کا یہ حال ہے کہ نگراں مشیر خزانہ ڈاکٹر امجد کی سربراہی میں آٹھ اعلیٰ حکام پر مشتمل وفد کو واشنگٹن میں ہونے والے آئی ایم ایف کے ایسے اجلاس میں شرکت کیلئے بھیجا گیا جہاں انہوں نے صرف رسمی ملاقاتیں اور وفود کی تقریریں سنیں، نہ تو کوئی قرضہ جاری ہونا تھا نہ ہوا نہ ہی کوئی مذاکرات ہوئے اور انتخابات کے لئے قائم نگراں حکومت کا آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی تو مینڈیٹ میں شامل نہیں مگر قومی خزانے کی حالت کو نظر انداز کر کے آٹھ اعلیٰ حکام پر مشتمل پاکستانی ”سامعین“ کی ٹیم کو واشنگٹن بھیج دیا گیا حالانکہ تقاریر سننے اور اس سے استفادہ کرنے کیلئے نگراں مشیر خزانہ اور ان کے ایک معاون کافی تھے اور ملک کی نمائندگی بھی اجلاس میں ہوجاتی۔ دنیا بالخصوص آئی ایم ایف پاکستان کی حکومتی اور سیاسی صورتحال سے بخوبی واقف ہیں۔ مجھے اس امریکی کنکشن کی ٹھوس حقیقت کا اعتراف ہے مگر عوام کے سامنے سیاسی قائدین کے واضح انکار اور جھوٹ پر اعتراض ضرور ہے۔ اکیسویں صدی کی گلوبلائزیشن کے ہاتھوں سکڑی ہوئی دنیا اور افغانستان میں عالمی سپر پاور کے مفادات ایک ٹھوس حقیقت ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں اس وقت کی علاقائی یا عالمی طاقت کی سرپرستی اور تعاون سے اقتدار حاصل کرنے والے حکمرانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے اسی طرح کمزور اور غریب ممالک کا بڑی طاقتوں سے تصادم کے بجائے تعاون سے مناسب وقت تک بچاؤ کی حکمت عملی بھی کوئی نئی بات نہیں لیکن رعایا یعنی عوام سے حکمرانوں کا جھوٹ بولنا یا غلط بیانی کرنا کبھی بھی جائز قرار نہیں پایا لہٰذا مختصر یہ کہ 2014ء میں امریکی افواج اور ساز و سامان کا افغانستان سے پاکستان کے راستے محفوظ اور پُرامن انخلاء کیلئے پاکستان کی نومنتخب حکومت کا تعاون لازمی امریکی ضرورت ہے۔ یہ بھی ٹھوس حقیقت ہے کہ ہماری معاشی، سیاسی، عسکری اور علاقائی صورتحال بھی چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود امریکہ سے تعاون کا لازمی تقاضا کررہی ہے یہ تاثر بھی بڑی حد تک درست دکھائی دیتا ہے کہ ماسوائے چند چھوٹی جماعتوں کے پاکستان کے متعدد اہم سیاسی قائدین اپنے انداز اور بیانات سے تو مختلف نظر آتے ہیں اور انتخابات میں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں لیکن انتخابات سے پہلے اور بعد میں بھی امریکہ کی ٹھوس حقیقت کو تسلیم کئے بیٹھے ہیں۔ حقائق کا ہوشمندانہ ادراک کرتے ہوئے مشکل صورتحال سے بچ کر نکلنا ہمیشہ اچھا فیصلہ سمجھا گیا ہے۔
کرپشن ہماری انتخابی مہم کا وہ لازمی حصہ ہے کہ جو سیاست دان ماضی میں کرپشن کو اپنا سیاسی اور ذاتی حق سمجھ کر کرتے رہے ہیں وہ بھی کرپشن ختم کرنے کا عہد دہرا رہے ہیں جبکہ حالات اور سمت کی رفتار الیکشن کے بعد بھی کرپشن ختم نہ ہونے کا واضح اشارہ دے رہی ہے لہٰذا کرپشن کا موضوع ہمارے الیکشن کا حصہ ہے اور رہے گا۔ اسی طرح فیشن بھی ہمارے دولت مند اور بااثر طبقے کی ہی ضرورت ہے۔ غریب عوام کو تو بنیادی ضروریات زندگی کی فکر ہی سانس نہیں لینے دیتی مگر ہمارے بااثر اور دولت مند طبقے کے پاس دولت کی فراوانی،دھوپ کے چشمے، ٹی شرٹ، موزے، جوتے، لباس، خوراک ، دوائیں اور مشروبات سے لے کر جدید اسلحہ ، مہنگی ترین کاریں، منفرد تعمیراتی ڈیزائن تک کے جدید رجحانات اور فیشن کو خریدنے اور اپنانے کے لئے وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ ایک عالمی شہرت یافتہ کمپنی کے بعض ملبوسات بلکہ اس کے تیار کردہ ایک ہینڈ بیگ کی قیمت بائیس ہزار ڈالرز ہے جو ایک پاکستانی مزدور ووٹر کیلئے دس سال کی مسلسل کمائی سے بھی زیادہ مگر ہمارے بعض دولت مند سیاستدانوں کیلئے خریدنا آسان ہے۔ ہماری سابق وزیرخارجہ کی ایک وجہ شہرت مہنگے ہینڈ بیگ بھی تھے۔ امریکہ میں آباد پاکستانی پاکستان سے آنے والے بعض دولت مند مہمانوں سے فیشن کی انتہائی مہنگی اور ڈیزائنر مصنوعات کے برانڈز کے بارے میں تفصیلی لیکچر بھی سنتے اور سردھنتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے انتخابی امیدوار اور قائدین فیشن سے والہانہ لگاؤ کے ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کے ڈیزائنوں کا مزہ لیتے ہوئے ان کے کردار، عمل، قانون و اصول کے احترام کی پاسداری کا وہ انداز بھی اپنا لیں جو اس عالمی شہرت یافتہ امریکی کمپنی نے 22/اپریل کو 16لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرکے قائم کیا۔ مختصر تفصیل یہ کہ اس ملٹی نیشنل کمپنی کے ارجنٹائن میں منتظمین نے اپنی امپورٹڈ مصنوعات کو ارجنٹائن کے سخت کسٹم قوانین اور ڈیوٹی سے بچانے کے لئے 2005ء تا 2009ء کے عرصہ میں پانچ لاکھ93 ہزار ڈالرز کی رشوت اور تحائف وہاں کے کسٹم حکام کو دیئے جو امریکہ میں قائم کمپنیوں اور بزنس اداروں کیلئے بنائے گئے قانون ”فارن کرپٹ پریکٹسز ایکٹ“ کی خلاف ورزی تھی۔ کمپنی کے داخلی آڈٹ میں ارجنٹائن میں رشوت دینے کے اس واقعے اور امریکی قانون کی خلاف ورزی کمپنی کے امریکی ہیڈ کوارٹرز کے علم میں آتے ہی اس کمپنی نے خود امریکی حکام سے رابطہ کرکے امریکی قانون کی خلاف ورزی کا اعتراف کیا جس کے باعث 16لاکھ ڈالر کا جرمانہ بھی ادا کیا۔ ازخود رپورٹ کرنے اور دنیا بھر سے منافع کما کر امریکہ لانے والی کمپنی پر بھی وہی اصول اور قانون لاگو کیا گیا جو کسی چھوٹی کمپنی یا بزنس مین پر لاگو ہوتا ہے۔ ہم تو شخصیات ، عہدے اور اثرات کو دیکھ کر الزام، سلوک، جرم اور سزا کا تعین کرتے ہیں۔ کیا امریکی فیشن کے ساتھ اس مثال اور کرپشن کے بارے میں امریکہ کے ایسے قوانین کو بھی بطور فیشن یا ضرورت اپنانے کیلئے سوچا جاسکتا ہے۔ امریکی خوشحالی، اعتماد اور استحکام کی ٹھوس حقیقت سمجھ کر بہت کچھ اپنایا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین