• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کرکٹ ٹیم کے حالیہ دورہ انگلینڈ کے دوران ایک طرف جہاں ٹیم کو کھیل کے میدان میں مایوس کن کارکردگی کے باعث شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، وہاں دوسری طرف ٹیم اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو ایک اور محاذ پر اُس وقت ہزیمت اٹھانا پڑی جب برطانوی کمپنی ’’براڈ شیٹ‘‘ نے دورہ انگلینڈ کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کا سامان اور اثاثے ضبط کرنے کا کہا۔ براڈ شیٹ کے وکیل نے بذریعہ خط پاکستان کرکٹ بورڈ کو آگاہ کیا کہ ’’پاکستان کا ادارہ نیب، براڈ شیٹ سے مقدمہ ہارنے کے باوجود 33 ملین ڈالرز کی ادائیگی کرنے میں ناکام رہا اور چونکہ پاکستان کرکٹ ٹیم، حکومت پاکستان کی ملکیت ہے لہٰذا براڈشیٹ، پاکستان ٹیم کو ملنے والے پیسے اور پاکستان کے دیگر اثاثہ جات ضبط کرنے کا حق رکھتی ہے۔‘‘

آئزل آف مین میں رجسٹرڈ براڈشیٹ ایل ایل سی نامی فرم سے اختلافات اور لندن کی بین الاقوامی مصالحتی عدالت میں نیب کا کیس ہارنے کی وجہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں مذکورہ کمپنی سے کیا گیا وہ معاہدہ تھا جس کے تحت 200 سے زائد پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کا پتہ لگانے کیلئے اِس کی خدمات حاصل کی گئیں اور معاہدے میں سابق وزیراعظم نواز شریف، بینظیر بھٹو، آصف زرداری اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) اکبر کو بطور خاص ہدف بنایا گیا۔ معاہدے کے تحت مقررہ اہداف سے وصول شدہ رقم میں سے 20 فیصد کمپنی کو ادا کیا جانا تھا لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود براڈشیٹ کوئی خاطر خواہ معلومات نیب کو فراہم کرنے میں ناکام رہی جس پر نیب نے 2003ء میں براڈشیٹ سے معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا ،تاہم براڈشیٹ اس بات پر بضد رہی کہ پاکستان اپنے اثاثوں کی کھوج لگانے کیلئے کئے گئے معاہدے کے عوض کمپنی کو 33 ملین ڈالر ادا کرے مگر پاکستان کے انکار پر براڈشیٹ نے لندن کی بین الاقوامی مصالحتی عدالت میں پاکستان کے خلاف کیس دائر کردیا اور 2018ء میں عالمی عدالت نے براڈشیٹ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے حکومت پاکستان کو 21 ملین ڈالرز کی ادائیگی کے احکامات دیئے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ حکومت پاکستان کو واجب الادا رقم پر سود کی مد میں یومیہ 5 ہزار ڈالرز کی ادائیگی بھی کرنا ہوگی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس مقدمے کی پیروی کیلئے غیر ملکی لا فرم ’’ایلن اینڈ اووری‘‘ نے حکومت پاکستان سے 13.5 ملین پائونڈز وصول کئے جبکہ 2008ء میں نیب نے براڈشیٹ سے تصفیہ ہونے پر کمپنی کے مالک کو 5 ملین ڈالرز ادا کردیئے تھے لیکن پاکستان کی طرف سے مقدمے کی پیروی کرنے والے احمر بلال صوفی سے آج تک کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ 5 ملین ڈالرز کی ادائیگی کے باوجود براڈشیٹ نے عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف مقدمہ کیوں دائر کیا اور عدالت نے براڈشیٹ کے حق میں فیصلہ کیوں سنایا؟

یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل 2011ء میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی چلی اور کینیڈا کی مائننگ کمپنی ’’ٹیتھان‘‘ سے یکطرفہ طور پر معاہدہ منسوخ کردیا تھا جس پر 2012ء میں ٹیتھان نے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے عالمی بینک کے ٹریبونل ’’انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس‘‘ میں پاکستان کے خلاف 16 ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا تھا اور گزشتہ سال جولائی میں عالمی عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان پر 5 ارب 97 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کیا جو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ تھا۔یاد رہے کہ ٹیتھان سے معاہدہ 1993ء میں طے پایا تھا اور یہ سمجھا جارہا تھا کہ ریکوڈک کے مقام پر 260 ارب ڈالر کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں مگر پاکستان کو کچھ حاصل ہونے کے بجائے اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی طرح کی ایک اور پیشرفت میں 2017ء میں ترکی کی پاور کمپنی Karkey سے رینٹل پاور معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے پر عالمی بینک کے ٹریبونل ’’انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس‘‘ نے پاکستان پر تقریباً 900 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ ترک صدر طیب اردوان کی ذاتی کوششوں کے باعث ترکی کی پاور کمپنی اپنے دعوے سے دستبردار ہوگئی۔

قومی اداروں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عالمی معاہدے کرنا اور انہیں یکطرفہ منسوخ کرنا کوئی کھیل نہیں، اس کی ملک کو ایک بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔براڈشیٹ کی جانب سے پاکستان کرکٹ ٹیم کا سامان اور پاکستان کے دیگر اثاثے ضبط کرنے کی دھمکی اور نیب کو لکھا گیا خط پاکستان کیلئے باعث عار ہے۔ براڈشیٹ نے لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کی عمارت، پاکستانی ہائی کمشنر کا گھر اور نیویارک میں پی آئی اے کا روز ویلٹ ہوٹل ضبط کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اگرچہ براڈشیٹ، سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف کسی قسم کا ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی لیکن وہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو پاکستانی عدالت سے سزا اور جرمانہ عائد کئے جانے کے بعد مزید 60 لاکھ ڈالر کی دعویدار ہے۔کمپنی کا موقف ہے کہ براڈ شیٹ نے سب سے پہلے العزیزیہ کیس پر نیب کو شریف خاندان کے خلاف دستاویزات فراہم کی تھیں۔ نیب کو براڈشیٹ سے کئے گئے معاہدے سے کچھ حاصل تو نہ ہوسکا تاہم سیاستدانوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کی نیب کو بڑی قیمت چکانا پڑی ،جو قوم کی دولت کا ضیاع اور ایک گھاٹے کا سودا ہے۔

تازہ ترین