• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی بالکل میں سمجھتا ہوں یہ سب سے بہترین وقت ہے پاکستان جانے کا، اس وقت پاکستان کے عوام کو اور پاکستان کو میری ضرورت ہے کیونکہ اس وقت جو لوٹ مار، کرپشن اور بدامنی پاکستان میں موجود ہے اس کے خاتمے کے لئے ایماندار اور حوصلہ مند قیادت کی ملک کو ضرورت ہے لہٰذا میں سمجھتا ہوں میری سیاسی جماعت کو میرے لئے پاکستان کے عوام ضرور ووٹ دیں گے۔ جنرل پرویز مشرف پاکستان واپسی سے صرف چند روز قبل ہی فون پر ہونے والی اس گفتگو میں بڑے اعتماد سے پاکستان جانے کے حوالے سے میرے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ میں حیرانی سے ان کی گفتگو سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا جنرل مشرف کی ٹیم میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے جو انہیں پاکستان کے زمینی حقائق سے آگاہ کر سکے کیونکہ مجھ سمیت سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات کی قائل تھی کہ جنرل مشرف کے لئے پاکستان میں حالات بالکل بھی موزں نہیں ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی کی حکومت جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر دیکر پاکستان سے باہر بھجوانے کے بعد سے مسلسل پاکستان کے عوام میں اپنی مظلومیت ثابت کرنے کیلئے جنرل پرویز مشرف کو ہی محترمہ بینظیر بھٹو کا قاتل قرار دیتی رہی ہے لہٰذا پرویز مشرف کی پاکستان واپسی کی صورت میں پیپلزپارٹی خود کو عوام کی نظر میں مظلوم ثابت کرنے اور اپنے ووٹ بینک میں اضافے کیلئے جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری کے لئے نگراں حکومت پر ضرور دباؤ ڈالے گی تاکہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا ٹرائل مشرف کے خلاف شروع کرکے عام انتخابات میں کامیابی کیلئے محترمہ کے قتل کے صدمے کو عوام میں ایک بار پھر بیدار کیا جاسکے اور عوام سے مظلومیت کا ووٹ حاصل کیا جا سکے جبکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی سب سے اہم سیاسی جماعت مسلم لیگ ن ہے جس کی حکومت کو برطرف کر کے جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تھا، جنرل مشرف کی پاکستان واپسی کسی بھی طرح ن لیگ کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتی جس کے باعث اس بات کا قوی امکان موجود تھا کہ مسلم لیگ ن جنرل مشرف کی گرفتاری کیلئے باقاعدہ تحریک شروع کر سکتی تھی جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان شروع سے ہی پاکستان میں جاری دہشت گردی ، خودکش حملوں اور ڈرون حملوں کا ذمہ دار جنرل مشرف کو قرار دیتے رہے ہیں لہٰذا تحریک انصاف نے بھی جنرل مشرف کی گرفتاری کے لئے نگراں حکومت پر ضرور دباؤ ڈالنا تھا جبکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی آزاد عدلیہ جس پر بھی مشرف دور میں شب خون مارا گیا تھا کس طرح گوارا کر سکتی ہے کہ ایک ایسا شخص جس پر درجنوں مقدمات ہوں اور وہ آزادانہ پاکستان میں سیاست کرتا رہے لہٰذا ایک بھی عوامی درخواست کی صورت میں جنرل مشرف کے خلاف تمام مقدمات دوبارہ کھل سکتے تھے، اتنے زیادہ خدشات کے باوجود جنرل پرویز مشرف کا اعتماد مجھے یہ محسوس کرنے پر مجبور کررہا تھا کہ کوئی خفیہ طاقت موجود ہے جو مشرف کو پاکستان میں سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہی تھی جس کے باعث پرویز مشرف پاکستان پہنچنے والے تھے تاہم اب جبکہ جنرل مشرف پاکستان پہنچ چکے ہیں اور ان کو باقاعدہ گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے پاکستان سے باہرجانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور ایک ایک کر کے ان کے خلاف مزید کیس بھی کھولے جا رہے ہیں جن میں غداری جیسی دفعات کو بھی شامل کیا گیا ہے جبکہ نواب اکبر بگٹی قتل اور لال مسجد آپریشن جیسے کیس بھی باری کے منتظر ہیں، ان سب کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے مشرف کو کسی منصوبے کے تحت پاکستان بلایا گیا ہے اور اب ان کا مستقبل پاکستان میں زیادہ تابناک نظر نہیں آتا۔
ماضی میں اقتدار میں آنے اور اب پاکستان میں آنے کے واقعات میں جو ایک چیز مشترک لگتی ہے وہ یہ کہ دونوں مرتبہ جنرل پرویز مشرف کو حالات میں ملوث ہونے کے لئے دھکا کسی اور نے دیا ،ماضی میں اگر دیکھا جائے تو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے جب جنرل پرویز مشرف کو برطرف کیا تو ان کا جہاز فضا میں تھا لہٰذا اگر نیچے موجود ان کے فوجی رفقاء حکومت کا تختہ نہ پلٹتے اور جنرل پرویز مشرف کے جہاز کو بحفاظت زمین پر اتار کر انہیں اقتدار کی ایوانوں میں نہ پہنچاتے تو شاید 14 سال قبل ہی جنرل پرویز مشرف ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہوتے اور میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت مکمل کر چکے ہوتے لیکن اب تجزیہ کرنا آسان ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے رفقاء نے اس وقت جنرل مشرف کو دھکا دیا جبکہ موجودہ صورتحال میں بھی جنرل مشرف کو دھکا دینے والوں کے نام بھی مستقبل قریب میں تاریخ کا حصہ بنیں گے۔
جنرل پرویز مشرف سے چاہے لاکھ اختلاف سہی تاہم ان کے دور حکومت میں جو عوامی فلاح و بہبود کے کام ہوئے ان سے پہلو تہی کرنا بھی ناانصافی ہوگی، بلاشبہ مشرف دور میں متعارف ہونے والے بلدیاتی نظام کے ذریعے اقتدار پہلی دفعہ عوام تک منتقل ہوا، لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوئے، معاشی ترقی ہوئی، ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچے، عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہو ا، جنرل مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر سراہا گیا اور دنیا بھر میں پاکستان کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ جنرل مشرف کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک دلچسپ واقعہ جاپان میں پیش آیا جو قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہے، چند ماہ قبل کچھ پاکستان کے اعلیٰ سرکاری حکام جاپانی حکومت کی دعوت پر جاپان تشریف لائے جہاں ایک تقریب میں شرکت کے لئے ہوٹل سے ٹیکسی میں بیٹھ کر تقریب کے انعقاد کی جگہ پہنچنا تھا، راستے میں ٹیکسی ڈرائیور نے مذکورہ سرکاری اہلکار سے دریافت کیا کہ آپ کا تعلق کس ملک سے ہے سرکاری اہکار نے جواب دیا کہ پاکستان سے ہے تو جاپانی ٹیکسی ڈرائیور نے فوراً کہا مشرف والے پاکستان سے،اس بات سے ہمارے سرکاری اہلکار کافی متاثر نظر آئے۔ بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ جاپان کے عام آدمی کو اپنے ملک کے وزیراعظم کا نام بھی شاذ و نادر ہی یاد ہوتا ہے تاہم جنرل مشرف کے اقتدار کے خاتمے کو کئی برس گزر چکے ہیں اور آج تک ایک عام جاپانی ٹیکسی ڈرائیور پاکستان کے نام کے ساتھ مشرف کا نام یاد رکھتا ہے تو بین الاقوامی سطح پر جنرل مشرف کی شہرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے تاہم اس مرتبہ پاکستان جاکر انتخابات میں حصہ لینے کا جنرل پرویز مشرف کا یہ فیصلہ مکمل طور پر غیر دانشمندانہ لگتا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں جنرل مشرف کو مزید پانچ سال پاکستان سے باہر گزارنے چاہئیں تھے تاکہ عوام بھی جمہوریت کے مزے سے متعارف اور اس کے ثمرات سے آشنا ہو جاتے، پاکستان میں جمہوریت کی عمر صرف پانچ برس ہوتی ہے لہٰذا ہمارے ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا بھرپور موقع ملنا چاہئے تاہم بعض تجزیہ نگاروں کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ پاکستان میں بعض سیاسی قوتیں جنرل پرویز مشرف کو نشان عبرت بنانے کی خواہشمند ہیں تاہم یہ سیاسی قوتیں بھول چکی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کا تعلق جس ادارے سے رہا ہے وہاں اب بھی بہت بڑی تعداد میں ان کے ماتحت موجود ہیں جن کے لئے اپنے سابق باس کی بہت زیادہ تحقیر شاید قابل برداشت نہ ہو لہٰذا سیاسی قوتوں کو مشرف کے معاملے میں اتنا ہی آگے جانا چاہئے جہاں سے واپسی کا راستہ موجود ہو تاکہ پاکستان میں جمہوریت کے درخت کو مضبوط جڑوں کے ساتھ پنپنے کا موقع مل سکے۔
تازہ ترین