• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی سماج کا ایک سیاسی کارکن جو نظریاتی مضبوطی اور برسوں کی ریاضت کے بعد سیاسی طور پر ارتقا پذیر ہوا ہواس کی موت کسی بھی سماج کے لیے بہت بڑا المیہ ثابت ہوتی ہے۔حاصل بزنجو سیاسی طور پر اتنے مضبوط ہو گئے تھے کہ اپنے سیاسی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے تدبیروں میں لچک کا مظاہرہ کر سکتے تھے لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہ کیا۔وہ دراصل محکوم قوموں کیساتھ ساتھ مزدوروں، کسانوں، اقلیتوں، عورتوں اور طالب علموں کے حقوق کے بھی داعی تھے اور اکثر اس وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنتے تھے لیکن وہ اپنی آخری سانس تک بائیں بازو اور سیکولر فکر سے جڑے رہے۔وہ سمجھتے تھے کہ ایک مضبوط پاکستانی قوم بننے کے لیے موجودہ نوآبادیاتی نظام کوتبدیل کرنا ہوگاکیونکہ اسی صورت میں سول بالادستی اور جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ محکوم قوموں کے مسائل جمہوریت کے مسئلے سے علیحدہ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ جمہوریت کا ایک لازمی جزو ہے اس لیے ایک مضبوط پاکستانی قوم بننے کے لیے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا ہو گا۔اسی لیے وہ پچھلے کچھ عرصے سے اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے دفاع کیلئے بڑی بے باکی سے آواز بلند کر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ 1970میں اگر اٹھارویں ترمیم آئین کا حصہ بن گئی ہوتی تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی نہ ہوتی۔حاصل بزنجو کا یہ پختہ یقین تھا کہ سماجی تبدیلی کا سب سے موثر محرک سیاست ہے جورفتہ رفتہ ارتقا پذیر ہوتی ہے جس کی پاکستان میں آبیاری کیلئے یہاں کے حکمرانوں کو صبرسے کام لینا ہوگا۔

کراچی یونیورسٹی میں ترقی پسندانہ نظریات رکھنے والی طلبہ تنظیموں کااتحاد حاصل بزنجو نے ہی بنایا تھااور وہ اس اتحادکے چیئرمین بھی رہے۔زمانہ طالب علمی سے انہوں نے آمرانہ طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیااور جس طرح ان کے والدنے اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا،اسی طرح میر حاصل بزنجو بھی کبھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے جس کے لیے انہیں اور ان کی پارٹی کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔جب پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کیا اور وکلا نے چیف جسٹس بحالی تحریک شروع کی تو حاصل بزنجو ہمیشہ کی طرح اس تحریک کے بھی شانہ بشانہ کھڑے رہے۔اسی تحریک کے دوران کراچی پریس کلب میں ایک احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں سینکڑوں لوگ موجود تھے ،پولیس نے پریس کلب کو چاروں طرف سے گھیرلیا۔صحافیوں نے حاصل بزنجو کو یہ پیشکش کی کہ وہ پچھلے راستے سے فرار ہو جائیں مگر حاصل بزنجو اس بات پر بضد رہے کہ وہ اس طرح بھاگیں گے نہیں بلکہ گرفتاری دیں گے۔اسی تاریخی دن حاصل بزنجو نے دیگر کامریڈ ساتھیوں کے ساتھ گرفتاری دی۔2013ء کے انتخابات کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف اور حاصل بزنجو کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہوا اور یوں بلوچستان کی تاریخ میں متوسط طبقے کے پہلے لیڈر ڈاکٹر مالک بلوچ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک بلوچ نے جلاوطن بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات کیے، ان مذاکرات کے ثمرات حاصل ہونا شروع ہوئے ہی تھے کہ بلوچستان میں تبدیلی آگئی اور ڈاکٹر مالک کی حکومت ختم ہوگئی۔یہ وہ دور تھا جب بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پرتشدد کارروائیاں بڑھ گئیں،پرامن جدوجہد کے قائل ہونے کی وجہ سے جنگجوئوں نے حاصل بزنجوکی جماعت کے کئی سینئر رہنمائوں کو قتل کر دیا ۔حاصل بزنجو کا آخری وقت تک یہی موقف تھاکہ مسلح لڑائی سے بلوچوں کی پرامن جدوجہد کو نقصان ہورہاہے۔جب متحدہ اپوزیشن کی جانب سے انہیں سینٹ کے چیئرمین کے لیے نامزد کیاگیااور پھر روایتی طریقے سے ان کی یقینی جیت کو ہار میں بدلا گیاتو انہوں نے ان قوتوں کو آڑے ہاتھوں لیاجو اس سارے عمل کے پیچھےکار فرما تھیں۔ اس کے بعد پنجاب کے مختلف اضلاع میں ان کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کیے گئے جس پر انہوں نے برملا کہاکہ اگر ان کی موت پنجاب کی کسی جیل میں ہو تو یہ ان کے لیے اعزاز ہے۔انہیں کچھ عرصہ پہلے پھیپھڑوں کے کینسر کا عارضہ لاحق ہوا۔وہ اس وقت کینسر کی آخری اسٹیج پر تھے مگر جس بہادری کے ساتھ انہوں نے اس بیماری کا مقابلہ کیاوہ اپنی مثال آپ ہے۔اس بات کاآپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس دن ان کا انتقال ہوا وہ دن گیار ہ بجے تک ویب نار پر سیاسی تجزیہ دے رہے تھے اور سانس کی تکلیف کی وجہ سے انہوں نے تھوڑی دیر کے لیے اس گفتگو سے اجازت لی اور اس کے کچھ دیر بعد ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

میرا شہر مجھ پر گواہ ہےکہ ہر ایک عہد سیاہ میں

وہ چراغِ راہ وفا ہوں میں، کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

تازہ ترین