• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیشت اور گورننس کا اگرچہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت تعلق ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہ مختلف ہیں۔بیرونی امداد اور قرضوں سے معیشت کو سہاراضرور ملتا ہے لیکن اگر گورننس بہتر نہ ہو تو سرمایہ کاری میں رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔بہتر گورننس اور سیاسی مخالفین کے ساتھ بہتر تعلق سے سرمایہ کار حکومت وقت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ترسیلات زر میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ملکی معیشت مضبوط ہوتی جاتی ہے۔لیکن اگر گورننس اچھی نہ ہو تو اس سے معیشت کی ترقی کی رفتار وہ نہیں ہوتی جس کی ضروت ہوتی ہے۔بد قسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت کے دو سالوں کے دوران نہ تو سیاسی مخالفین اور صحافتی اداروںکے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی گئی نہ ہی گورننس کی بہتری پر توجہ دی گئی جس کی وجہ سے ملک میں عجیب صورتحال ہے۔احتساب کے نام پر انتقامی کارروائیوں کا چرچا ہے۔اس لئے سیاست اور صحافت کے میدان میں غیر یقینی کی فضا ہے۔یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ امن و امان کی طرح سیاسی صورتحال کو کنٹرول میں رکھے۔اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ دوستانہ تعلق کو مزید مضبوط کرے اور حکومتی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں کے خلاف بیان بازی کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ دے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نجانے کن لوگوں کے مشوروں پر حکومت نہ اپوزیشن کے ساتھ مفاہمانہ رویہ رکھنے پر تیار ہے نہ ہی میڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔یہ بات سمجھنے والی ہے کہ ایسے رویوں سے اختلاف فروغ پاتے ہیں اور افراتفری کا ماحول بنتا ہے جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں ہے نہ ہی حکومت کیلئے سود مند ۔گورننس کا عالم دیکھیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ کی حکومت ناکام دکھائی دیتی ہےلیکن بجائے اپنی اصلاح کرنے کے بیورو کریسی پر غصہ اتارا جاتا ہے۔آئے روز تبادلوں کی آندھی چلتی ہے۔ایسے میں کون افسر یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے سکتا ہے۔کیا اس طرح حکومت چلتی ہے؟ سپریم کورٹ جیسے اہم ترین ادارے نے نیب اور حکومت کے بارے میں جو ریمارکس دیئے ہیں اس سے زیادہ اب اخلاقی طور پر کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔خود حکومت کے اندر اختلافات اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ جاری ہے۔صوبہ کے پی میں وزیر اعلیٰ کے مطابق مشیر اطلاعات اجمل وزیر کو نا کردہ جرم کی سزا دینے کی باتیں زبان زد عام ہیں ، وہ ابھی تک انکوائریاں بھگت رہا ہے۔جس اشتہار کی اشاعت کے بارے میں اجمل وزیر پر کمیشن مانگنے کا الزام لگایا گیا اس میں نہ تو ان کا اختیار تھا کہ وہ کسی اشتہاری ادارے کو وہ اشتہار دے سکے اور نہ ہی اس اشتہار کی منظوری کے کسی کاغذ پر ان کے دستخط موجود ہیں۔اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ مذکورہ اشتہار کی منظوری کیلئے کمیشن لیا گیا یا طلب کیا گیا ہے تو پھر کارروائی تو منظوری دینے والوں کے خلاف ہونی چاہئے نہ کہ غیر متعلقہ فرد کے خلاف لیکن دوسری جانب ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جن کا کلہ مضبوط ہے ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔کیا کسی کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ ایسے رویوں کی وجہ سے بھی گورننس متاثر ہوتی ہے۔ وزیراعظم صاحب کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔پنجاب جیسے بڑے صوبہ میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔سندھ میںنظام ،حکومت چلانے والے نہیں چلاتے بلکہ ٹرین سے کٹی ہوئی بوگی کی طرح بس خود ہی چل رہا ہے۔دیکھیں کہ کب تک چلتا ہے۔یہی حال بلوچستان کا ہے۔اگر وہاں فوج کی کارکردگی کو درمیان سے نکال دیں تو باقی بچتا کیا ہے؟بلوچستان میں تو حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔یہی حال کے پی میں ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب کی طرح خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی نہ جانے کیوں اور کیسے وزیراعلیٰ بنائے گئے ہیں۔اگر وزیر اعلیٰ کے پی کے بیانات کو دیکھیں تو یہ صوبہ جنت کا ٹکڑا لگتا ہےجبکہ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔سرکاری ہسپتالوں کا حال دیکھیں، سرکاری اسکولوں کو جا کر دیکھیں تو نا گفتہ بہ حالات ہیں۔سرکاری اداروں میں محکمہ سوئی گیس کے دفاتر کی طرح عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔اس صوبہ میں بھی گورننس کا برا حال ہے۔وزراء اور مشیروں کے اندرونی اختلافات اور مخالف کو زچ کرنے کے رویوں کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حکومت کے اندر ہی ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو وزیراعظم عمران خان کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

ان تمام حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ نظام کامیاب نہیں ہے۔اس کو جتنا جلد تبدیل کیا جائے اتنا ہی ملک و قوم کیلئے بہتر ہے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ اب وہ وقت جلد آنیوالا ہے۔وہ صدارتی نظام ہو یا غیر سیاسی افراد پر مشتمل حکومت ہو۔کچھ تو ہوگا اور تب ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔جس میں شامل لوگوں کے نہ تو ذاتی ،سیاسی مفادات ہوں نہ سیاسی مجبوریاں ۔دیکھنے والے شاید یہ سب دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔

تازہ ترین