• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب میں بحیثیت اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر ’’ناگ منی‘‘ کا بیک گرائونڈ میوزک کمپوز کروا رہا تھا اور نثار بزمی فلم کے میوزک ڈائریکٹر تھے، وہ صبح سے شام تک ناگ منی کے ایک ایک فریم پر اپنے فن کے جوہر دکھا رہے تھے، جب آدھی سے زیادہ فلم کا بیک گرائونڈ میوزک بن چکا تو اچانک ایک دن انہوں نے ایورنیو اسٹوڈیو کے تھیٹر ہال میں مجھ سے پوچھا۔’’تمہارا پسندیدہ راگ کونسا ہے؟‘‘میں نے کہا ’’مجھے دو راگ بے حد پسند ہیں، ایک بھیروی اور دوسرا پہاڑی‘‘۔بزمی صاحب کا جواب مجھے آج بھی یاد ہے کہنے لگے ، تمہیں فلم ہدایتکار کے بجائے موسیقار ہونا چاہئے تھا ‘‘آج لگ بھگ پچاس (50)برس قبل کا یہ واقعہ مجھے اس لئے یاد آیا کہ حال ہی میں ریڈیو سے نشر ہونے والا نوشاد صاحب مرحوم کا ایک انٹرویو سننے کا موقع ملا، اس انٹرویو میں انہوں نے جن راگوں کی تعریف و توصیف کی تھی وہ یہی راگ بھیروی اور پہاڑی تھے۔

نوشاد صاحب سے میری ملاقات بہت کم رہی۔ پہلی ملاقات علی صدیقی مرحوم کی منعقد کی ہوئی اردو کانفرنس دہلی میں ہوئی ،پاکستان سے بھی بہت سے شاعر و ادیب حضرات مدعو کئے گئے تھے۔یورپ سے مجھے دعوت دی گئی تھی، اسی کانفرنس کےدوران علی صدیقی صاحب نے میرا تعارف نوشاد صاحب سے کروایا اور بتایا ’’ یہ ہالینڈ میں رہتے ہیں ‘‘ انہوں نے پوچھا ’’ہالینڈ تو پھولوں کا دیس ہے،وہاں آپ کیا کرتے ہیں ؟‘‘میں نے کہا ’’آوارہ گردی اور اس آوارہ گردی کا کارن آپ ہیں ‘‘…حیران ہوئے، مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے،’’ بھئی میں کیوں ؟‘‘

میں نےکہا ’’دیکھئے ۔جب مسلمانوں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے نومولود کے کان میں اذان دی جاتی ہے، ہمارے ساتھ ’’حادثہ ‘‘ یہ ہوا کہ اذان کے بجائے آپ کی موسیقی کی تان کان میں چلی گئی ،بس پھر کیا تھا دین کے رہے نہ دنیا کے، یوں سمجھئے اسی دن سے آپ کے گرویدہ چلے آ رہے ہیں۔‘‘

میری بات سن کر نوشاد صاحب بہت خوش ہوئے، کہنے لگے ’’صاحب ! آپ نے تو ہمیں فلک پر پہنچا دیا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ کچھ دیرتک فلم و ادب اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے انہیں اپنا وزیٹنگ کارڈ پیش کرنا چاہا تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا۔ نہیں بھئی۔ آپ سے ابھی اتا پتہ نہیں لیں گے۔آپ سے ہمیں پھر ملنا ہے‘‘ میں نے انکے بڑے سے دل میں اپنا چھوٹا سا گھر بنا لیا تھا۔

میری ان سے دوسری ملاقات بھی دہلی میں ہوئی ان سے جہاں بھر کے موضوعات پر گفتگو ہوئی لیکن میں صرف موسیقی اور اپنے پسندیدہ راگوں بھیروی اور پہاڑی کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ جب میں نے اپنے پسندیدہ راگوں میں بھیروی اور پہاڑی کا نام لیا تو انہوں نے میری پسند کی تائید کرتے ہوئے کلاسیکی موسیقی کے علاوہ فلمی موسیقی کے بھی کئی حوالے دیئے، شہنشاہ موسیقی کی باتیں میرے دل پہ نقش ہوتی چلی گئیں، مجھے یاد آتا گیا کہ نوشاد صاحب کے بہترین گیت اسی راگ بھیروی کی دین ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین نغمے راگ بھیروی میں پیش کئے۔کہتے ہیں موسیقی کی دیوی کے آٹھ روپ ہیں ان میں سے ایک اچھوتا روپ بھیروی کہلاتا ہے اس راگ نے میاں تان سین سے نوشاد علی تک خراج عقیدت وصول کیا ہے اس راگ کو بھارت میں نوشاد اور شنکر جے کشن اور پاکستان میں نثار بزمی اور خواجہ خورشید انور نے اپنی انمول دھنوں میں بکثرت استعمال کیا ۔ راگ بھیروی جہاں عوام میں نامور رہا وہاں خواص میں بھی مقبول ہے۔ بھیروی نہ صرف کامل راگ ہے بلکہ یہ سات سروں کی بجائے بارہ کومل سروں کے ساتھ ایک خوبصورت اور دل کو چھو لینے والا راگ بن گیا ہے کہ یہ راگ علی الصبح کا راگ ہے اسلئے اس میں روشنی، تازگی، نازکی، خوشبو اور باد صبا جیسی نفاست کی جھلک ہے۔

1946 میں لاہور بھاٹی گیٹ کے رہنے والے اے آر کاردار نے ’’شاہجہان‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی تھی اس کے موسیقار نوشاد تھے۔ اسکا ایک نغمہ جسکو نوشاد نے اپنی سحر انگیز موسیقی میں ترتیب دیا تھا اور کے ایل سہگل کی سدا بہار آواز میں ہم تک پہنچا تھا،یہ نغمہ تھا۔’’جب دل ہی ٹوٹ گیا ،ہم جی کے کیا کریں گے‘‘اس کے بعد نوشاد نے لتا منگیشکر کو ’’دلاری‘‘ میں موقع دیا۔ انہوں نے پھر اسی راگ میں اس فلم کیلئے یہ دل موہ لینے والا گیت ریکارڈ کروایا۔

’’اے دل تجھے قسم ہے تو ہمت نہ ہارنا‘‘

میرے حساب سے لتا منگیشکر کی یہ لاجواب آواز پاک و ہند میں نوشاد کے اسی گیت کی وجہ سے پہنچی تھی۔نوشاد نے فلم ’’بیجو باورا‘‘ کے تمام نغمے کسی نہ کسی راگ میں بنائے تھے۔ اور یہ عمل محض راگ برائے راگ نہ تھا بلکہ نوشاد کی یہ شعوری کوشش تھی کہ ہر ایک نغمے کو ایک ا لگ الگ راگ میں پیش کیا جائے۔بیجو باورا کا مشہور گانا

’’تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا ‘‘

نوشاد کے فن کا کمال صرف بھیروی تک ہی محدود نہیں تھا انہوں نے کلاسیکی موسیقی کے علاوہ پاپولر میوزک اور فوک سنگیت کو یکجا کر دیا تھا۔ یہاں مجھے نوشاد کا کمپوز کیا ہوا ایک بھجن یاد آ رہا ہے۔

’’من تڑپت ہری درشن کو آج …‘‘

کہتے ہیں یہ بھجن پنڈت نہرو کو بے حد پسند تھا۔،پنڈت جی مذہبی آدمی نہ تھے لیکن نوشاد کے اس بھجن کی کمپوزیشن پر فدا ہو جاتے تھے۔اب توآپ جان گئے ہونگے کہ مجھے بھیروی اور نوشاد کیوں پسند ہیں ؟…

تازہ ترین