• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے عوام اس وقت سخت تکلیف میں مبتلا ہیں جو نہ صرف وفاق کو بلکہ صوبے کو بھی کھربوں روپے کے سالانہ ٹیکس دینے کے باوجود بے یار و مددگار کسی مسیحا کا انتظار کررہے ہیں ، قدرت نے تو کراچی والوں پر صرف بارش کی صورت میں پانی برسایا لیکن حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن کے سبب کراچی کے عوام کے گھر بارش کے ساتھ ساتھ گٹر کے پانی میں ڈوب گئے ۔ملک بھر میں سب سے مہنگی بجلی خریدنے والے کراچی کے عوام کےلئے کے الیکٹرک نے بھی بجلی بند کردی۔

جس کے بعد کراچی کا بہت بڑا علاقہ کئی دن تک بجلی سے محروم رہا۔اس مشکل وقت میں کراچی کے عوام نےشہری حکومت کے نمائندوں کو مدد کے لئے بلایاتو کہا گیا کہ ہمارے پاس نہ اختیار ہیں اور نہ ہی وسائل لہٰذا صوبائی حکومت سے مدد مانگو ، صوبائی حکومت کے پاس جائیں تو صوبائی حکومت شہری حکومت پر ذمہ داری ڈال رہی ہے ، وفاقی حکومت سے مدد مانگی گئی تو کہا گیا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سارے وسائل اور اختیارات صوبے کے پاس ہیں ان سے ہی بات کریں۔

کراچی کے عوام کو اس مشکل وقت میں اول اول نہ رکن صوبائی اسمبلی ،نہ ارکان قومی اسمبلی ملے ، نہ میئر کراچی ملے ، عوام مارے مارے پھرتے رہے، حقیقت تو یہ ہے کہ دوہزار بیس کے لئےسندھ کا سالانہ بجٹ 1200 ارب مختص کیا گیا تھا ، پیپلز پارٹی پچھلے بارہ برسوں سے اقتدار میں ہے اور ہر سال ہزاروں ارب روپے سالانہ کا بجٹ پیش کرتی آرہی ہے ، یعنی ہر سال خزانے سے ایک ہزار ارب روپے نکلتے ہیں اور خرچ بھی ہوتے ہیں۔

بارہ سال کا مجموعی خرچ دیکھا جائے تو کم از کم بارہ ہزار ارب روپے سندھ حکومت نے سندھ پر خرچ کئے ہیں ،لیکن اگر صرف کراچی شہر کا جائزہ لیا جائے تو کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، شہر بھر میں کچرے کی بھرمار اور گندگی ،کچی آبادیاں ، شہر بھر کے گٹر اور نالے اور اس میں موجود گندگی دیکھ کر شرمندگی کے سوا کچھ بھی محسوس نہیں ہوگا کہ وہ ہزاروں ارب روپے کہاں گئے جو صوبے اور شہر کی بہتری کے لئے ہر سال قومی خزانے سے نکالے جارہے ہیں۔

وہ کہاں خرچ ہورہے ہیں ، کس کی جیب میں جارہے ہیں، اس مشکل وقت میں تمام ارباب اختیار چاہے ان کا تعلق صوبائی حکومت سے ہے یا شہری حکومت سے ، جو شہر کو بنانے سنوارنے اور صاف ستھرا رکھنے کے ذمہ دار ہیں سب ایک دوسرے پر کراچی اور صوبے کی تباہی کے الزامات لگا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے نظر آئے، کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں اور اگر وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی کوتاہی پر تنقید کرے تو صوبائی حکومت کے ترجمان اپنی کوتاہیوں کو چھوڑ کر وفاقی حکومت کو پنجاب اور کے پی کے میں موجود خامیاں گنوانے لگتے ہیں ،غرض کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

کراچی کے عوام جن کے گھر پانی میں تباہ ہوگئے ،جن کے گھروں میں گٹر کا پانی جمع ہوگیا ، جن کے گھروں کا الیکٹرونکس کا سامان کے الیکٹرک کی نااہلی سے جل کر خاکستر ہوگیا ، وہ یہ نہیں جان سکے کہ اس قدرتی آفت میں ان کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار کون سی حکومت یاادارہ ہے ؟ کراچی کی شہری حکومت کے زیر انتظام کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ میٹروپولیٹن کارپوریشن جیسے ادارے جہاں چھ ہزار خاکروب ملازم ہیں کیا کسی شخص نے بارش اور بارش کے بعد چھ ہزار خاکروبوں کو سڑکوں پر دیکھا ہے ؟

مجھے یقین ہے نہیں دیکھا ہو گا کیونکہ ان میں اکثریت گھوسٹ ملازمین کی ہے جو سیاسی و سرکاری اشرافیہ کے بنگلوں پر ملازمت کرتے ہیں اور تنخواہیں سرکار سے وصول کرتے ہیں ، لیکن اس موقع پر کراچی میں خدمات انجام دینے والی این جی اوزمیں شامل ان افراد کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی جو بغیر کسی لالچ کے سڑکوں پر نکلے اور کراچی کے عوام کو مدد فراہم کی اور دعائیں سمیٹیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ عدلیہ برسوں سے کراچی کو ٹھیک کرنے کے لئے حکم جاری کرتی چلی آرہی ہے لیکن بیوروکریسی نے ان احکامات کو جان بوجھ کر صرف نظر کیا۔

اگر سپریم کورٹ کے احکامات پر کئی سال پہلے عملدرآمد شروع کردیا جاتا تو کراچی ایک صاف ستھرے شہر کی شکل میں موجود ہوتا ،سرکلر ریلوے کی زمینوں پر قبضہ کرکے دکانیں اور مکانات کی تعمیر ، نالوں پر قبضہ ، ندیوں پر قبضہ مافیا نے ناجائز تعمیرات کردیں ، لیکن کراچی جیسے روشنیوں کے شہر کو تباہ کرنے والوں کوکوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ باپ کے مرنے پر انسان یتیم کہلاتا ہے اور اگر باپ کے علاوہ کوئی وارث نہ ہو تو انسان لاوارث ہی کہلاتا ہےاور اگر کسی کو یتیم اور لاوارث کی تعریف حقیقی معنوں میں جاننی ہو تو وہ اس وقت کراچی کو دیکھ لے ، دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ کراچی والوں کو ایک اچھی اور مخلص قیادت عطا کرے جو ان کے دکھ اور درد کا مداوا کرے۔

تازہ ترین