• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل دھوپ چھائوں کا موسم ہماری فضاؤں کا مہمان ہے، جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی تو نہیںکی جا سکتی، بس اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے موسم بھی ہمارے مزاج آشنا ہو چکے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھلتے اور مرجھاتے ہیں۔ ہم جیسے شدت پسندوں کو معتدل رُت اور میانہ روی کب راس آتی ہے۔ ہم تو محبت اور نفرت میں شدتوں کے قائل ہیں۔ یہ بھی کوئی موسم ہے کہ جس کے بارے میں کچھ کہا بھی نہ جاسکے۔ درجہ حرارت کے اتار چڑھائو سے طے پانے والے موسم کا مزاج ایک جیسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ 24 گھنٹوں کے دوران موسم کے کئی کھٹے میٹھے ذائقے ہم اپنے احساس میں اتارتے ہیں۔

دھوپ اور چھائوں کا موسم ہر سال دو دفعہ ہمارے دلوں اور گھروں کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ جب بظاہر سب بھلا دکھائی دیتا ہے لیکن اندر خانے کوئی نہ کوئی کھچڑی پک رہی ہوتی ہے۔ وقت ایک شدت سے دوسری کی طرف باگیں موڑ رہا ہوتا ہے۔ سرما، گرما، بہار اور خزاں کے علاوہ بھی کئی مختصر مدت کے موسم ہوتے ہیں۔ یہ موسم دراصل وقفے اور سگنل کا نام ہے یعنی ایک مخصوص موسم سے دوسرے میں داخل ہونے سے پہلے ہمارے وجود کو آگاہی دی جاتی ہے اور اُس کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔ کسی بھی رُت کی تبدیلی کے وقت ایسا ہی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ نہ گرمی، نہ سردی، دن میں تھوڑی سی گرمی اور رات کے دامن میں بہت ساری خوشگوار ٹھنڈک دلوں کو بھلی لگتی ہے لیکن خوبصورت شامیں اداسی کا زیور پہننا لازمی سمجھتی ہیں ۔ پرسکون اور خاموش راتوں میں راز خود بخود دل کے صحن میں در آتے ہیں اور یادداشت کا پلو پکڑ کر پکی گرہ باندھ لیتے ہیں۔کبھی کبھی زندگی کا ہر پہلو بے یقینی کی دھند میں لپٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کی حرکتیں بھی فہم سے باہر ہو جاتی ہیں۔

ایک دفعہ ستمبر میں کسی نے وقت کی آنکھوں میں دھول پھینک کر زمین کے آنگن میں درد کی فصل کے بیج رکھ دئیے تھے۔ زمین کا فریضہ تو پالنا ہے وہ پالتی رہی۔ سبزہ، امن اور نعمتیں جنم دینے والی نے نفرت کی چیخ سنی تو خود صدمے کا شکار ہوگئی۔ وہ ابھی تک صفائیاں دیتی آ رہی ہے کہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا مگر کون سنتا ہے کوئی فارغ ہی نہیں۔ اس کے سینے میں اب بھی وہ کرچیاں موجود ہیں اور شکوک کی نگاہیں بھی جو احساس میں ہمیشہ کیلئے تیروں کی طرح پیوست ہو چکی ہیں۔

پچھلے کئی مہینوں سے ابن آدم آزمائشوں سے گزر رہا ہے۔ وائرس کے بارے میں بڑی باتیں کی گئیں، کس کس کو ذمہ دارنہ ٹھہرایا گیا لیکن یہ بارشیں یہ طوفان یہ پانی کے ریلے تو انسان کے بنائے ہوئے نہیں ہیں اب تو فضا میں آلودگی بھی نہیں۔ ہواؤں، درختوں اور بادلوں پر اُڑنے، سمندروں میں تیرنے، ستاروں کے دیار آنے جانے والے انسان کو قدرت اوقات دکھانے پر تل گئی ہے۔ پکے مکانوں کی حفاظتی ضمانت کس کے پاس ہے۔ روٹین سے ہٹ کر بارش کیا ہوئی، سب حفاظتی حصار زمیں بوس ہونے لگے، سیلابی ریلے روزگار، روٹی، سکون اور چھت بھی بہالے گئے۔حکومت تنہا کیا کرے کیا نہ کرے بہت سے لوگ تماشائی کے کردار سے باہرآنے کو تیارہی نہیں ہو رہے ۔اپنے لوگوں کی بقاء کیلئے کام کرنا سب کا فرض ہونا چاہئے ۔ انسانیت کا تقاضہ بھی یہی ہے ۔ مگر خدمتِ خلق کی دعویدار بہت سی تنظیموں کی حرکت نظرنہیں آتی۔

حکومت پنجاب کی دو سالہ کارکردگی کے حوالے سے ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبے کے سینئر کالم نگاروں، تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ صوبائی کابینہ بھی موجود تھی۔صحت، تعلیم اور زراعت کے حوالے سے صوبے میں اُٹھائے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی گئی۔ فیاض الحسن چوہان نے عمدہ نظامت اور وکالت کی۔ جناب عثمان بزدار کا خطاب بہت دُھواں دار اور جاندار تھا۔ حاضرین حیران بھی تھے اور خُوش بھی۔جمہوری نظام میں وزیر اعظم کا عہدہ سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ اگر وزیر اعظم کو عثمان بزدار صاحب پر بھروسا ہے اور وہ اُن کی توقعات کے مطابق کام کر رہے ہیں تو پھر کسی فردیا جماعت کو اُنھیں ہٹانے کی افواہیں نہیں پھیلانی چاہئیں۔ بہر حال وزیر اعلیٰ پنجاب خوش قسمت ہیں کہ انہیں کمیٹڈ اور نیک نام افسران کا تعاون میسر ہے۔ جو کسی بھی صوبے کی ترقی میں اہم کردار اداکرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔

بہر حال دھوپ چھاؤں جیسی رُت میںسیاسی اُفق پر بہت کچھ بدل رہا ہے۔ ایسا بھی وقوع پذیر ہو رہا ہے جو کبھی سوچا نہیں تھا۔ یقینا اِس کا کریڈٹ وزیر اعظم کو جاتا ہے جو ملک کو ترقی کی طرف لیجانے کے سفر پر یوں رواں ہیں کہ تمام اداروں اور افراد کے لیے بھی اپنی سمت درست کرنا ضروری ہوگیا ہے۔

شاید یہ موسم، یہ خوف، وہم ،بے یقینی اور اسرار اس فکر کا نتیجہ ہے جو ہر وقت ہمارے ذہن کے آسمانوں پر چھائی رہتی ہے۔ ’’نا جانے کل کیا ہو جائے‘‘ کچھ ہونے والا ہے، وغیرہ جیسے جملے ہماری روز مرہ عادت میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ جس سے حاصل تو کچھ نہیں ہوتا لیکن خدشات میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین