• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی قانونی ماہرین اسے قومی مجرم قرار دیتے ہیں لیکن مجھ ناچیز کی رائے میں وہ اب پاکستانی قوم کا محسن بن چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ31جولائی2009ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو آئین توڑنے کا مجرم قرار دیا۔ آئین کی دفعہ چھ کے تحت آئین توڑنے والا غدار ہے اور غداری کا مقدمہ سپریم کورٹ نہیں چلاتی بلکہ وفاقی حکومت چلاتی ہے۔ یہ مقدمہ چلانے کی ذمہ داری صدر آصف علی زرداری اور ان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی تھی۔ دونوں نے یہ مقدمہ چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی کیونکہ مشرف کی سابقہ اتحادی جماعتیں مسلم لیگ(ق) اور متحدہ قومی موومنٹ اب پیپلز پارٹی کی اتحادی بن چکی تھیں۔2010 ء میں پرویز مشرف نے لندن میں آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کرلی۔2012ء میں انہوں نے پاکستان واپسی کااعلان کیا تو سینیٹ میں ایک متفقہ قرار دادمنظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس قرار داد کو نظر انداز کردیا۔ شاید پیپلز پارٹی کی قیادت اس قومی مفاہمتی آرڈی ننس(این آر او) پر کاربند تھی جسے سپریم کورٹ نے16دسمبر 2009ء کو غیر موثر قرار دیدیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ بدترین آرڈیننس پرویز مشرف کے دستخطوں سے جاری ہوا تھا جس کے ذریعہ کرپشن کو قانونی تحفظ دیا گیا تھا۔ جتنا عرصہ پیپلز پارٹی کی حکومت رہی مشرف پاکستان نہیں آئے۔ جیسے ہی نگران حکومت قائم ہوئی تو مشرف پاکستان آدھمکے۔ کراچی ائیر پورٹ پر چند درجن لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ سندھ ہائی کورٹ سے انہوں نے عبوری ضمانت کرائی اور بڑے آرام سے اسلام آباد آگئے۔ وہ کئی مقدمات میں مطلوب تھے، مفرور بھی تھے اور اشتہاری بھی قرار دئیے جاچکے تھے لیکن کسی پولیس والے نے ان سے تفتیش کی جرات نہ کی اور نہ ہی گرفتاری کے لئے ان کے فارم ہاؤس کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کوئی کوشش کی۔پرویز مشرف نے بڑے اطمینان سے قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے الیکشن لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ یہ وہ دن تھے جب میڈیا اور عدالتیں سیاستدانوں کا آپریشن کلین اپ کررہی تھیں۔ کسی نے پرویز مشرف سے یہ نہیں پوچھا کہ جناب آپ کو سپریم کورٹ نے آئین توڑنے کا مجرم قرار دیا ہے آپ نے بطور آرمی چیف اپنا حلف توڑا آپ الیکشن کیسے لڑسکتے ہیں؟ جب یہ سوال اٹھا تو تین حلقوں سے ان کے کاغذات مسترد ہوگئے لیکن چترال سے منظور ہوگئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے احساس ہوا کہ شاید کراچی، قصور اور اسلام آباد کا قانون چترال سے مختلف ہے۔ بعدازاں چترال سے بھی مسترد ہوگئے۔ پرویز مشرف کی بدولت ہمارے نظام میں موجود تضادات کھل کر سامنے آرہے تھے اور میں دل ہی دل میں مشرف کو داد دے رہا تھا اگر وہ واپس نہ آتے تو شاید یہ تضادات بھی سامنے نہ آتے۔ وہ میرے مجرم بھی تھے اور محسن بھی۔
پھر وہ دن آیا جب پرویز مشرف ججوں کی نظر بندی کے کیس میں اپنی ضمانت کرانے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔ عدالت نے ان کی درخواست ضمانت مسترد کردی اور گرفتاری کا حکم دیا۔ عدالت میں موجود کسی پولیس افسر نے مشرف کو گرفتار نہیں کیا بلکہ وہ بڑے آرام سے اپنے ذاتی محافظوں کے ساتھ اپنے فارم ہاؤس واپس پہنچ گئے۔ جب قانون ایک سابق فوجی ڈکٹیٹر کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا تو وکلاء میں اشتعال پیدا ہوا۔ وکلاء نے عدالتوں میں مشرف کے حامیوں کے ساتھ مار پیٹ شروع کردی جو نہیں کرنی چاہئے تھی۔ یہ پہلو قابل غور ہے کہ وکلاء کے رویے میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب انہوں نے دیکھا کہ مشرف کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک نہیں کیا جارہا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے تحریری حکم میں مشرف کی گرفتاری پر اصرار کیا اور ان کے خلاف مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات شامل کردیں تو پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ انہیں ایک رات پولیس لائنز میں رکھا اگلے دن ان کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دیدیا گیا۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان میں منتخب وزرائے اعظم اور عوام کے مسترد شدہ ڈکٹیٹر کے لئے قانون مختلف ہے۔ ذرا اپنی تاریخ میں جھانکئے ،پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب”اگر مجھے قتل کردیا گیا“ پڑھئے جو بھٹو نے راولپنڈی جیل کی کال کوٹھڑی میں لکھی تھی۔ اس جیل کی سیکورٹی کرنل رفیع الدین کے ذمہ تھی۔ کرنل رفیع الدین کی کتاب”بھٹو کے آخری 323دن“ پڑھئے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہم نے اپنے ایٹمی پروگرام کے بانی کے ساتھ جیل میں کیا سلوک کیا تھا۔بھٹو کو عدالتوں میں تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ بھٹو کے ذاتی دشمن جسٹس انوارالحق کو چیف جسٹس بنا کر انہیں قتل کے ایک ایسے مقدمے میں پھانسی دیدی گئی جس کی کسی نچلی عدالت میں کبھی سماعت نہ ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پولیس نے سر میں لاٹھیاں ماریں۔ بینظیر بھٹو کو سکھر جیل میں ڈالا گیا۔
بھٹو کے ساتھ جو ہوا یہ 1977ء اور1979ء کے درمیان ہوا، پھر1999ء میں نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا؟ آرمی چیف کو آئینی طریقے سے برخاست کیا گیا لیکن اس کے ساتھی چھڑیاں گھماتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہوئے اور نواز شریف کو گرفتار کرلیا۔ ان کے بھائی شہباز شریف اور بیٹے حسین نواز سمیت کئی عزیزوں اور ساتھیوں کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔ پہلے نواز شریف کو راولپنڈی کے کور ہیڈ کوارٹر میں بند کیا گیا، پھر مری لے جایا گیا، پھر کراچی اور پھر اٹک قلعے میں ڈال دیا گیا۔ شہباز شریف کو ان کے بھائی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش ہوئی لیکن وہ ڈٹے رہے۔ حسین نواز کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا۔ آخر کار بیگم کلثوم نواز نے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے عدالت میں درخواست دائر کی اور کئی ہفتوں کے بعد ماں کی اپنے بیٹے سے ملاقات ہوئی۔ اس دوران نواز شریف پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ درج کرلیا گیا اور عدالتوں میں انہیں پولیس کی بکتر بند گاڑیوں میں پیش کیا جاتا تھا۔ انہی بکتر بند گاڑیوں میں آصف زرداری کو کراچی، لاہور اور راولپنڈی کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا تھا لیکن پرویز مشرف کا معاملہ مختلف ہے۔انہیں ان کی آرام دہ بلٹ پروف جیپ فارم ہاؤس سے عدالت لے جاتی ہے اور واپس بھی چھوڑتی ہے۔ سیاستدانوں کے لئے لانڈھی جیل، اڈیالہ جیل اور اٹک کا قلعہ لیکن سابق ڈکٹیٹر کے لئے اس کا فارم ہاؤس جیل قرار پاتا ہے۔ سیاستدان پولیس کی بکتر بند گاڑی میں جھٹکے کھائے لیکن ڈکٹیٹر اپنی لینڈ کروزر میں مزے سے آئے جائے۔ یہ وہ فرق ہے جو صرف پرویز مشرف کی وجہ سے ہمیں سمجھ آیا۔ وہ واقعی ہمارامحسن ہے۔
اسی پر بس نہیں، مشرف کی گرفتاری کا حکم دینے والے جج کی کردار کشی شروع ہوگئی ہے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) بھی مشرف کے حق میں بولنے لگی ہے۔ نوجوان پوچھتے ہیں کہ طالبان پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے۔ وہ آئین توڑیں تو دہشتگرد مشرف آئین توڑے تو کوئی بات نہیں۔ اتنا فرق اور اتنا تضاد کیوں؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں لیکن میں مشرف کا شکر گزار ہوں کہ وہ پاکستان واپس آئے اور میری اس غلط فہمی کو دور کیا کہ پاکستان کا قانون سب کے لئے برابر ہے۔ اب مشرف کے وکلاء نے عدالت میں کہا ہے کہ موصوف کی والدہ دبئی میں بیمار ہیں اور مشرف کو ان کی عیادت کے لئے دبئی جانا ہے لہٰذا ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ اس سلسلے میں درخواست دی جائے، عام خیال یہ ہے کہ پرویز مشرف کو پاکستان سے بھگانے کے لئے ان کے غیر ملکی دوست حرکت میں آچکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر پرویز مشرف پاکستان سے بھاگ گئے یا بھگا دئیے گئے تو پھر ہم کس منہ سے آئین اور قانون کی بالا دستی کے دعوے کریں گے؟ مشرف کی واپسی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ پاکستان میں دو قانون ہیں ، ایک عام آدمی کے لئے ایک خاص آدمی کے لئے، اگر وہ بھاگ گیا تو پتہ چلے گا کہ خاص آدمی کے لئے اب کوئی قانون نہیں،کیا ہم مشرف کا پیشگی ایک اور شکریہ ادا کردیں؟
تازہ ترین