• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند مہینوں سے میں مسلسل ڈاکٹرعطاالرحمن کے مضامین پڑھتا چلا آرہا ہوں جو روزنامہ جنگ میں شائع ہوتے ہیں۔ انہی مضامین کے توسط سے مجھے ایک بارپھر یہ پتہ چلا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پاکستان میں کس نوعیت کے تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھی اور کون سی بنیادی اصلاحات متعارف کروائیں۔ انہی مضامین میں ڈاکٹر عطا الرحمن کے ان خیالات کے بارے میں جاننے کا بھی موقع ملا جووہ جمہوریت کے حوالے سے رکھتے ہیں۔ اس پرتبصرہ کرنا ضروری ہے مگر پہلے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بات ہو جائے۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی طرح ہائر ایجوکیشن بھی ایک ایسا دارہ ہے جس پربجا طورپر فخر کیا جاسکتا ہے۔ یہاں صرف اورصرف میرٹ کو ملحوظ خاطررکھا جاتاہے۔ اگرچہ اس ادارے کی بنیاد آمریت کے دورمیں رکھی گئی لیکن اس سے ادارے کی افادیت اور نیک نامی میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ جب 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اوراحسن اقبال کچھ عرصے کیلئے وفاقی وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے بھی اس ادارے کی انفرادیت اور افادیت کو برقرار رکھا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے ایک کام یہ کیاکہ ڈاکٹرعطاالرحمن کو توسیع دینے کے بجائے ڈاکٹر جاوید لغاری کو (HEC) کاچیئرمین مقرر کر دیا ۔ ڈاکٹر جاوید لغاری اس سے پہلے سینٹ میں پی پی پی کے رکن تھے اور اس سے بھی پہلے وہ سندھ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ (ZABIST) جیساعظیم الشان تعلیمی ادارہ قائم کرچکے تھے اور اپنی اس قابلیت اورذہانت کی بنیاد پربینظیر بھٹو کے دست ِراست سمجھے جاتے تھے۔ ڈاکٹر جاوید لغاری نے اس ادارے کواس پانچ سالہ دورمیں اپنی ہی پارٹی کے دھن، دھونس اور دھاندلی سے جس طرح بچائے رکھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کبھی انہیں حکومت کی طرف سے جعلی ڈگری کے معاملے میں دباؤکاسامنا کرنا پڑا تو کبھی فنڈز کی کٹوتی کی سزا بھگتنا پڑی۔ پی پی پی اس زعم میں مبتلا تھی کہ ”ان کا بندہ“ ان کی کہی ہوئی بات رد نہیں کرے گا لیکن جب ایسا نہ ہوسکا تو انہوں نے جاوید لغاری کے بھائی کے خلاف سندھ میں جھوٹے پرچے درج کئے اورانہیں گرفتار تک کرلیا۔ اس سب کے باوجود HEC نے جس سند کو جعلی سمجھا اسے جعلی ہونے کی ہی ”سند“ عطاکی۔ حکومتی دباؤ، فنڈز میں کٹوتی اور 18ویں ترمیم کی آڑ میں HEC کو سرے سے ختم کرنے یا اس کی خودمختاری سلب کرکے صوبوں کو منتقل کرنے کی سازشوں سے نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ جاوید لغاری نے HEC کی کارکردگی کو بھی متاثر ہونے نہیں دیا۔ HECکے زیر اہتمام ہزاروں طلبہ وظائف پر بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان نامساعد حالات میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان طلبہ کی بہت بڑی اکثریت ان افراد پرمشتمل ہے جوسرکاری سکولوں اور کالجوں کی پیداوار ہیں۔ وہ اپنے وسائل کی بنیاد پرتوپاکستان کی کسی پرائیویٹ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے تھے لیکن صرف میرٹ کی بنیاد پر ان طلبہ کویورپ اور امریکہ کی بہترین درسگاہوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجا گیا۔ یہ عمل گزشتہ تقریباً 8برسوں سے جاری ہے اورسینکڑوں کی تعداد میں Foriegn Qualified طلبہ اب پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھارہے ہیں۔ اس ادارے سے یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ یہ اساتذہ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں بلکہ ایک خاص پروگرام صرف ان یونیورسٹیوں کے لئے بھی تشکیل دیا گیا جو دورافتادہ علاقوں میں ہیں اورجہاں سہولیات کا فقدان ہے۔ وہاں کے اساتذہ کو خصوصی وظائف دے کر باہر بھیجاگیا تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آئیں اوران پسماندہ علاقوں کوبھی وہ تعلیم دیں جوصرف بڑے شہر میں رہنے والے طلبہ کو میسرہے۔
اس کے علاوہ یونیورسٹیوں کا انفراسفرکچر بہتر بنانے کے لئے HECاربوں روپے خرچ کرچکی ہے۔ ان منصوبوں میں معیاری ہوسٹلز کی تعمیر سے لے کر جدید LABSاور کلاس رومز کی تعمیر تک کے منصوبے شامل ہیں۔ آج پاکستان کی یونیورسٹیوں میں سائنسی آلات، کمپیوٹر لیب وغیرہ کے حوالے سے جو سہولیات میسر ہیں اس میں HECکی کاوشیں کافی اہم ہیں۔ اب ان کو استعمال کرکے معیاری کام کرنا اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں HECکا دعویٰ ہے کہ پاکستان سے چھپنے والے تحقیقی مقالوں میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ اعدادو شماراپنی جگہ درست ہیں اور یہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس سلسلہ میں مقدار کی بجائے معیارکو ”معیار“ بنایا جائے توزیادہ بہتر ہوگا۔ بہرکیف ان تمام کوششوں کو جاری رہنا چاہئے۔ گزشتہ دو تین برسوں سے HECکے بجٹ میں بتدریج کمی کی جارہی ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ اب سیاسی جماعتوں نے اپنے منشورمیں وعدہ تو کیا ہے کہ وہ جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم پرخرچ کریں گے دیکھنا ہوگاکہ وہ اس وعدے کی تکمیل کریں گے یا نہیں…؟
اور آخر میں ڈاکٹر عطاالرحمن کے سیاسی تجزیوں کا احوال! ڈاکٹرصاحب صدارتی نظام رائج کرنے کے خواہاں ہیں، جمہوری حکومتوں کو ناکارہ قرار دیتے ہیں اور آمریت کے دور کی ترقی کے گن گاتے ہیں اور یہاں تک کہ ڈاکٹرطاہر القادری کے مطالبات کے بھی بہت بڑے حامی ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کی قابلیت اور حب الوطنی ہرشک و شبہ سے بالاتر ہے۔ HEC بھی ان ہی کے وژن کانمونہ ہے۔ لیکن سیاست اور سیاست کی تاریخ ان کاموضوع نہیں۔ وہ جمہوریت اور آمریت کے دور میں ترقی کی شرح نمو کا تقابل کرتے وقت بہت سے حقائق فراموش کردیتے ہیں۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا بس اتنی گزارش کروں گاکہ ڈاکٹرعطاالرحمن کوسیاست اور انجینئر آغا وقارکو فزکس کے معاملات میں احتیاط سے گفتگوکرنا چاہئے۔
تازہ ترین