• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھا ارادہ اچھا ردِ عمل

وزیراعظم کراچی گئے، 100ارب روپے کے پیکیج کا اعلان متوقع ہے، بلاول بھٹو زرداری نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے:لگتا ہے اس بار عمران سنجیدہ ہیں، شفافیت ہونی چاہئے۔ تاحال نظام حکومت میں اچھے ارادے ہی ارادے ہیں، عمل کے نشان کہیں دکھائی نہیں دیتے، بہر صورت باقی ملک کے علاوہ عروس البلاد کراچی کی اجڑی مانگ سنوارنے کا عمل ایک آخری امتحان ہے۔’’ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ بلاول بھی مشاہدہ کریں گے اور اگر اس بار بھی کانٹوں کا ہار ملا تو پھر اگلی بار مخدوش ہونے پر مہر لگ جائے گی، کراچی کے حالات ہی وزیراعظم سنوار جائیں تو پی ٹی آئی 33فیصد نمبر لے سکتی ہے وہ بھی اگر بلاول بھٹو زرداری 5رعایتی نمبر دے دیں، وقت سازگار ہے اللہ تعالیٰ مہربان ہے۔ شاید کوئی نادان ہے تاہم ہم بلاول کی طرح خان صاحب کی آخری سنجیدگی کے منتظر ہیں، پیسے تھوڑے نہیں اگر وزیراعظم انہیں شفافیت کے ساتھ خرچ کرنے کی نگرانی خود کریں کیونکہ ان کی پارٹی میں آس پاس سے آئے مگر مچھ موجود ہیں جو ان کے لئے نقارے بجاتے اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں، کراچی کی روز افزوں بگڑتی صورتحال کے نہ سنورنے کا کوئی جواز باقی نہیں، وزارت عظمیٰ کا شوق تو پورا ہو گیا مگر بعد میں آنجناب کو معلوم ہوا کہ بڑی ہی کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی پکڑ دھکڑ موخر کر کے ترجیحی بنیادوں پر ملک اور بالخصوص کراچی پر ساری توجہ مرکوز رکھتے تو آج یہ حال نہ ہوتا کہ ووٹ دینے والے پچھتاتے، یہ ٹھیک ہے منشور نے کیا مجبور مگر بقول محمد علی جوہر؎

وصل کی شب نہ چھیڑ قصہ درد

وہ کسی اور دن سُنا لینا

کہ ابھی تو کئی مقامات آہ و فغاں ہیں، پھر جی بھر کے رویا، رلایا جا سکتا ہے، ہمارے ہاں بہت سا کام ہمیشہ ترجیحات کی غلط ترتیب کے باعث خراب رہا، وزیراعظم پیکیج کے استعمال پر خود نظر رکھیں بلکہ کچھ عرصہ کراچی میں کرسی لگا لیں ورنہ اچھے ارادے ٹائیں ٹائیں فش۔

٭٭٭٭

چند باتیں واعظوں کے لئے

شاعروں نے بلاوجہ واعظوں کو رقیبوں کے مقام پر بٹھا دیا، ورنہ طبقہ واعظاں چار جمعے لگا کر اس ملک کی تقدیر بدل سکتا تھا، اس ملک کے چھوٹے چھوٹے مسائل بڑی بڑی آفتیں جنم دیتے ہیں، راستے کے حقوق کیا ہیں، سلام کرنے سے پی آر میں کتنا اضافہ ہوتا ہے، ملاوٹ نے کسی طرح ہمارے جسمانی اخلاقی اعصاب شل کر دیئے ہیں، متحد ہو کر گلی محلے کے مسائل بہ آسانی حل کئے جا سکتے یہاں تک کہ محکموں کو بھی سیدھا کیا جا سکتا ہے، کیا یہ ضروری کہ اپنے مسلک کو صحیح دوسرے کے مسلک کو غلط ثابت کیا جائے؟ اسلام پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے، جذباتی اور اختلافی باتیں منبر رسول ﷺ پر کرنا تو کسی طرح جائز نہیں، جب لائوڈ اسپیکر پر کوئی عالم دین ایک مخصوص جارحانہ آواز میں مخاطب ہوتے ہیں اور پھر اچانک کوئی سُر بھی لگا دیتے ہیں تو مسجد میں جیسے بلوے جیسا سماں برپا ہو جاتا ہے، اسلامی طرز زندگی سے آگاہ کرنے کے بجائے صرف اسلامی شخصیات کی تعریفوں کے پُل باندھ دینا یہ بھی نہ دیکھنا کہ روایت درست ہے یا نہیں، مذہبی قصے کہانیاں اور کرامات و مکاشفات بیان کرنے کے بجائے اسلامی عظیم ہستیوں کا طرز زندگی سکھانا ہمارے اندر بہترین صفات پیدا کر سکتا ہے، دنیا کو بُرا بھلا کہنا اپنے گریبان میں نہ جھانکنا چنگیزی ہے، تبلیغ اسلام نہیں، مائیکرو فون میں منہ دے کر خطاب کرنے سے آواز پھٹ جاتی ہے اور مقصد فوت ہو جاتا ہے، عام سماجی مسائل کی اصلاح کو موضوع بنانے سے ہمارے حالات بدل سکتے ہیں، حضور سید الکونین ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’بہترین کلام مختصر اور مدلل ہوتا ہے‘‘ معقول بات جب دھیرے سے دل سے نکل کر زبان پر آتی ہے اثر رکھتی ہے، علماء کرام ہمارا معزز ترین طبقہ ہیں یہ عام زندگی کے آداب سکھانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

٭٭٭٭

حسن و شعر

حسن نہ ہوتا تو شاعری نہ ہوتی، آج حسیں ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے، اور انہیں اپنا حسن دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ کرنے کے وہ طریقے اور ساز و سامان میسر آ چکا ہے کہ شاعر اتنا ہی بیان کرنے سے قاصر ہے، وجہ شاعر کا شعری مذاق رکھنے سے محرومی اور مطالعے کی وسعت سے کورا ہونا ہے، شاعر وہ ہوتا ہے جو حسینوں کے توسط سے آٹے دال کا بھائو بتانے پر قدرت رکھتا ہو، حسن، منزل نہیں نشانِ منزل ہے، اچھے شاعر آج بھی ہیں مگر نہ جانے کیوں میرؔ و غالبؔ جیسے شعر کہنے کی زحمت نہیں فرماتے، حسن عام ہوتا جاتا ہے۔ شاعری شاذونادر، تجربہ شاہد ہے کہ حسین ہی اچھے اشعار کے گاہک ہوتے ہیں، اچھا شعر کہنے والے بھولے شاعر کو بھی دل دے بیٹھتے ہیں، ایسے نادر موقع سے تو فائدہ اٹھانا چاہئے مگر افسوس کہ خوبصورت شعر اب کم کم سنائی دیتے ہیں، پچھلوں کے اشعار پر ہی گزارہ ہو رہا ہے، ایک فارسی شعر میں میک اپ تسلی بخش نہ ہونے کا گلہ یوں کیا گیا ہے؎

مشاطہ رابگو کہ بر اسبابِ حسنِ یار

چیزے فزوں کند کہ تماشا بہ ما رسید

(بیوٹی پارلر والی سے کہو کہ حسنِ یار کے خدوحال اور میک اپ میں کچھ اور اضافہ کرے کہ تماشا ہم تک آ پہنچا ہے)

حسن و شعر کا تقابل چاند ستاروں اور رات سے کیا جا سکتا ہے، رات اس لئے کالی ہوتی ہے کہ اس میں چاند تاروں کا حسن نمایاں ہو سکے، شاعری زندگی کے حسن پر ٹارچ نہ مارے تو اسے چھوڑ دینا چاہئے، جو شاعری خالق نے کی ہے، اسے اجاگر کرنا انسانی شاعری ہے، غالب کو ایسی ہی شاعری پر قدرت حاصل تھی؎

دیکھو تو دلفریبیِٔ انداز نقش پا

موجِ خرام یار بھی کیا گل کتر گئی

٭٭٭٭

آلو ہمارے عہد کا نایاب ہو گیا

....Oمقررین:میر شکیل بغیر مقدمہ، ایف آئی آر پابند سلاسل ہیں۔

کیا یہ کارخانۂِ جُرم سازی ہے

کہ بے گناہ کو بھی جیل سے رہائی نہ ملی

....O آلو، تاجروں کے بقول برآمد کرنے کے سبب 100روپے کلو تک جا پہنچا۔

حکومت ایکسپورٹ پھر امپورٹ کی پالیسی پر گامزن ہے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین