• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

دوستو! لاہور کی قدیم تاریخ کو اب مسخ کیا جا رہا ہے۔ پرانی عمارتیں گرا کر پلازے اور پلاٹ بنائے جا رہے ہیں۔ باغبانپورہ کا علاقہ تاریخی عمارتوںکے حوالے سے کبھی بڑامتمول تھا۔ ہم نے آج سے پچاس سال قبل جب یہ علاقہ دیکھا تھا یقین کریں بے شمار تاریخی عمارتیں، مقبرے، بدھو کا آوا اور دیگر تاریخی باغ دور سے نظر آتے تھے۔ آج آپ ان کو تلاش کے باوجود نہیں ڈھونڈ پاتے۔

پچھلے ہفتے ہم باغبانپورہ مختلف تاریخی عمارتیں دیکھنے چلے گئے تو بدھو کا آوا کا ا سٹون دیکھا، آج سے کئی برس قبل یہ جگہ وسیع اور کھلی تھی، اب اس کے اردگرد پلازے بن چکے ہیں اور اسٹون یعنی پتھر پر درج عبارت انگریزی زبان میں ہے جس کا رنگ ماند پڑ چکا ہے۔ پھر بھی قارئین کے لئے ہم تحریر کر رہے ہیں۔ جس طرح لکھی ہوئی ہے اسی طرح لکھ رہے ہیں

THE SITE OF BUDDHU KA AWA AND THE HOUSE OF GENERAL AVITABILE.

کہتے ہیں اس اسٹون کے نیچے یا آس پاس بدھو کا گدھا دفن ہے۔ اس کو اپنے گدھے سے بڑا پیار تھا، لاہور کی کئی تاریخی عمارتوں کے لئے اینٹیں بدھو نے اپنے بھٹے سے اس گدھے پر لاد کر سپلائی کی تھیں اور اس جگہ ایک جنرل کی رہائش گاہ تھی۔

کبھی باغبانپورہ کا علاقہ بڑا خوبصورت اور کھلا ہوتا تھا۔ یہاں کبھی گھاس منڈی بھی تھی جو ہم نے بھی دیکھی تھی۔ شالامار باغ کے پچھلی طرف ہم نے کبھی کھیت بھی دیکھے تھے۔ ارائیں برادری کے زیادہ تر لوگ یہاں رہتے ہیں۔ شالامار باغ کے آگے واہگہ بارڈر تک صرف کھیت ہی کھیت تھے ،شام کے بعد لوگ باغبانپورہ سے آگے جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ آج آپ کو واہگہ بارڈر تک کوئی جگہ خالی نہیں ملے گی بلکہ دکھ کی بات یہ ہے کہ 1965ء کے شہداء کی یادگاریں بھی نظر نہیں آتیں، وہ بھی دکانوں اور عمارتوں میں چھپ گئی ہیں۔

کبھی پرانی انار کلی میں دور سے ایک مقبرہ نظر آیا کرتا تھا۔ پھر اس مقبرے کے اردگرد کئی پلازے بن گئے ،مقبرے کی طرف جانے والا راستہ بھی تنگ ہو گیا۔ بہت کم لاہوریوں کو پتہ ہو گا کہ یہ مقبرہ ایک فرانسیسی جنرل اور اس کی بیٹی کا ہے۔ اس کے بارے میں کبھی تفصیل بیان کریں گے۔ اس علاقے کو کبھی کڑی باغ اور باغ ونتورا بھی کہا جاتا تھا۔ جنرل آلارڈ اور جنرل ونتوراسکھ فوج کے جرنیل تھے، دونوں فرانسیسی تھے۔ 1839ء میں جنرل آلارڈ کا انتقال ہوا تھا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کو ان کی بیٹی کے پہلو میں دفن کیا گیا تھا جس کا نام میری شارے تھا۔ یہ مقبرہ کبھی 48کنال رقبے پر تھا اور قیام پاکستان تک بڑا وسیع علاقہ تھا۔ مہاراجہ کپور تھلہ نے یہاں بہت ساری اراضی خرید لی تھی، آج بھی وہاں کپور تھلہ ہائوس کے نام سے فلیٹ ہیں۔ یہ بڑا تاریخی باغ تھا۔ 1884ء میں جب سر سید احمد خاں لاہور آئے تو انہوں نے اسی باغ میں ایک تاریخی جلسےسے خطاب کیا تھا اور زندہ دلان لاہور کی اصطلاح استعمال کی تھی جو آج تک استعمال ہو رہی ہے۔ یہ تاریخی باغ گوروں کے پاس ہوتا تو وہ یہاں کوئی عمارت نہ بننے دیتے اس باغ اور مقبرے کو محفوظ کر لیتے البتہ 2008ء سے فرانسیسی سفارت خانے نے جنرل آلارڈ اور ان کی بیٹی کے مقبرے کو اپنی نگرانی میں لے رکھا ہے مگر حالات بہت خراب ہیں۔ اب آپ کو بوٹا سنگھ (جمیل) اور زینب کی سچی رومانی داستان کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔ آج سے چند سال قبل تک اس رومانی سچی داستان کو جاننے اور اس سے تعلق رکھنے والے کئی افراد زندہ تھے۔ ہمیں گمان تھا کہ شاید اب بھی ایک دو لوگ زندہ ہوں جو اس داستان کو جانتے ہوں۔ ہم اس حوالے سے کچھ لوگوں سے ملنے کے لئے مختلف جگہ گئے تو پتہ چلا کہ وہ لوگ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

اس سچی داستان کا آغاز مشرقی پنجاب سے ہوتا ہے مگر اس کا تعلق لاہور شہر سے بڑا گہرا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حقیقی کہانی کا آج بھی بے شمار لاہوریوں کو پتہ نہیں۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اس داستان میں شامل دو وکلاء میں سے ایک خاتون وکیل آغا شورش کاشمیری کے گھر کے ساتھ واقع ای پلومر بلڈنگ میں مرنے تک رہیں لیکن ان کے صاحبزادے آغا مشہود شورش کو بھی نہیں پتہ۔ بوٹا سنگھ جس کا تعلق مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر سے تھا اور ٹھیک ٹھاک زمیندار تھا 1947ء میں ہندوئوں اور سکھوں نے کئی مسلمان لڑکیاں اور عورتیں اٹھالی تھیں۔ غالباً 80ہزار عورتیں سکھوں اور ہندوئوں نے اٹھائی تھیں جن کے بارے میں پاکستان کی ایک درخواست یو این او میں آج بھی پڑی ہے۔ حکومت پاکستان کو لاہور میں کورٹ روڈ لوئر مال پر محکمہ بازیابی اغوا شدہ مستورات قائم کرنا پڑا تھا جو ہر کچھ دن بعد ان خواتین کی تصاویر اور کوائف شائع کرتا تھا ان کے لئےجن کو اپنے وارثوں کی تلاش ہوتی تھی۔ خیر بوٹا سنگھ کے پاس ایک مسلمان لڑکی زینب آ گئی یا کسی نے اس کو بوٹا سنگھ کے پاس فروخت کر دیا۔ بوٹا سنگھ کو زینب سے پیار ہو گیا اور اس نے زینب سے شادی کر لی اور دو بچیاں بھی پیدا ہو گئیں۔

1960ء میں جب پاکستان اور بھارت نے اغوا شدہ اور گم شدہ افراد کو تلاش کر کے ان کے گھروں تک پہنچانے کا کام شروع کیا تو کسی طرح بھارتی کمیٹی کے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ اس لڑکی کا تعلق پاکستان سے ہے چنانچہ زینب کی مرضی پوچھے بغیر ہی اس کو زبردستی لاہور اس کے گائوں پہنچا دیا گیا اور والدین کے حوالے کر دیا گیا اور بچیاں بوٹا سنگھ کے پاس رہیں۔ 1960ء میں بوٹا سنگھ نے پاکستان کے ویزے کی درخواست دی جو پہلے رد کر دی گئی پھر اس کو وزٹ ویزہ دے دیا گیا۔ کچھ واقعات کے مطابق اس نے پاکستان آنے سے قبل بھارت ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا اور بادشاہی مسجد دہلی کے امام نے اس کا نام جمیل احمد رکھ دیا تھا۔

(جاری ہے)

تازہ ترین