• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو ہفتے پہلے ایک لڑکے کا فون آیا۔ بتانے لگا کہ مجھے گلوکاری کا بہت شوق ہے اور میری آواز بھی بہت اچھی ہے۔میں نے اسے آڈیشن کے لیے آفس بلایا۔اسٹاف کو اکٹھا کیا اور اُس سے کہا کہ کوئی گیت یا غزل سنائو۔ اطمینان سے بولا’’سر !میں گانا گا تو سکتا ہوں سنا نہیں سکتا۔ ایک خاتون نے میسج کیا کہ مجھے نیوز اینکرنگ کا بہت شوق ہے۔ میں نے کہا آپ کوئی سی خبر پڑھتے ہوئے اپناایک کلپ موبائل میں ریکارڈ کرکے بھیجیں۔ جواب آیا ’’سر! میں اسکرین پر نہیں آنا چاہتی‘‘۔ میں نے کہا ’’تو پھر آپ ریڈیو پر ٹرائی کریں‘‘۔اُن کا جواب آیا ’’لیکن میں تو ٹی وی کی نیوز کاسٹر بننا چاہتی ہوں‘‘۔ میں نے اطمینان سے پیپر ویٹ اٹھا کر دیوار میں دے مارا۔ایک صاحب نے فرمائش کی کہ اُنہیں کسی چینل میں وڈیو ایڈیٹر کے طور پرشاندار تنخواہ کے ساتھ نوکری دلا دی جائے۔ پوچھا کہ آپ کا تجربہ کتنا ہے؟ جواب آیا’’تجربہ تو کچھ بھی نہیں، لیکن جب میں چینل میں جائوں گا تو آہستہ آہستہ سیکھ ہی جائوں گا‘‘۔ گزارش کی کہ حضور اگر آپ کسی کمرشل ادارے میں ایڈیٹنگ سیکھنے کے لیے داخلہ لیتے ہیں تو اُن سے تنخواہ مانگتے ہیں یا اُنہیں ماہانہ فیس دیتے ہیں؟‘‘ اطمینان سے بولے’’ظاہری بات ہے اُنہیں فیس دینا ہوتی ہے۔‘‘ میں نے گہری سانس لی’’تو یہاں آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو زیرو سے کام بھی سکھایا جائے اور قصاص بھی ادا کیاجائے‘‘۔اِس پر اُنہوں نے اثبات میں سرہلادیا۔

ہمارا یہی پرابلم ہے۔ ہماری وہ خوبیاں جو دوسروں کو نظر آنی چاہئیں وہ الحمدللہ ہمیں خود نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ہم میں کتنا ٹیلنٹ ہے، ہم کتنے ذہین ہیں، ہم کتنے مشہور ہیں۔ یہ سب باتیںکچھ ہی دِنوں میں ہم پر القا ہوجاتی ہیں ۔ یہ رویہ ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی در آیا ہے۔ آپ کسی سے بات کرکے دیکھئے، یہی سننے کو ملے گا’’پا جی! پورا محلہ میری دیانتداری کی تعریف کرتاہے‘‘۔ ایسے ہی ایک صاحب فرمانے لگے کہ فلاں علاقے میں ہر بندہ مجھے جانتا ہے۔ ایک دفعہ ان کے گھر جانا ہوا۔ تین گھنٹے تک لوگوں سے پوچھنے کے باوجود اُن کے گھرکا نہیں پتا چلا۔ آخری بندے کو پوری تفصیل بتائی لیکن اُس نے بھی نفی میں سرہلادیا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ آخری بندہ اُن کا ہمسایہ تھا۔خواتین میں یہ بیماری قدرے زیادہ پائی جاتی ہے۔ہر دوسری خاتون کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کے خواب سچے ثابت ہوتے ہیں، اس کی زبان سے نکلی ہوئی بددعا لازمی لگتی ہے اور اس کے اندر روحانی طاقتیں بیدار ہوچکی ہیں۔میری ایک کولیگ تھیں جو کسی کا کام بگڑنے پر فوراً بتایا کرتی تھیں کہ انہوں نے یہ سب پہلے ہی خواب میں دیکھ لیا تھا۔ میں نے ان سے کئی دفعہ گزارش کی کہ براہ کرم کام بگڑنے سے صرف دو دن پہلے خواب دیکھ لیا کریں تو بہت سے لوگوں کی زندگی عذاب ہونے سے بچ سکتی ہے ۔ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ اُن کی شادی اس لیے نہیں ہورہی کیونکہ جس لڑکے کا بھی رشتہ آتا ہے اس کے بارے میں خواب میں سرخ رنگ نظر آتا ہے لہٰذا میں شادی سے انکار کردیتی ہوں۔اتفاق سے کچھ دنوں بعد دفتر میں ایک صاحب اپوائنٹ ہوئے جن کی پہلی بیوی وفات پاچکی تھی، سر سے گنجے تھے اور عمر بھی تقریباً پچاس سے اوپر تھی۔ ایک دن انہوں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ وہ بھی دوسری شادی کے لیے کوئی مناسب رشتہ دیکھ رہے ہیں۔یہ بات میری کولیگ نے بھی سن لی۔ بندہ کھاتا پیتا تھا۔ اُسے میری کولیگ پسند آگئی اورایک دن اس نے خود میری کولیگ کو شادی کی پیشکش کردی اور آفر کی کہ اگر وہ شادی پر مان جاتی ہیں تو وہ اُن کے نام ایک کنال کا پلاٹ اور گاڑی کردیں گے۔ کولیگ صاحبہ نے پہلے تو پس و پیش کا مظاہرہ کیا پھر فوراً شرط عائد کردی کہ وہ کوئی بھی فیصلہ استخارے کے بعد کریں گی۔ اگلے دن وہ آفس آئیں تو میں نے ان کے بولنے سے پہلے مبارکباد دیتے ہوئے کہا’’ اس دفعہ یقینا سبز رنگ نظر آیا ہوگا‘‘۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھیں’’ہائے نوخیزبالکل ایسا ہی ہوا ہے‘‘۔

اصل میں کئی لوگوں کے اندر ایک ہتھوڑی فٹ ہوتی ہے جو اُن کے دماغ میں پیدا ہونے والے ہر تنقیدی خیال کو بادام کی طرح توڑ دیتی ہے۔نتیجتاً یہ خود پر ہی صدقے واری جاتے ہوئے اپنی ہی بلائیں لیتے رہتے ہیں۔اِنہیں لگتا ہے کہ چاولوں کے بغیر بھی بریانی بن سکتی ہے۔بالوں کے بغیر بھی پونی بنائی جاسکتی ہے۔ایسے لوگ پہاڑ پر چڑھنے کے شوقین تو ہوتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ اُنہیں ہیلی کاپٹر پر بٹھا کر چوٹی پر پہنچا دیا جائے۔ان کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ ڈاکٹر تو بن جائیں لیکن میڈیکل کی تعلیم نہ حاصل کرنی پڑے۔کافی عرصہ پہلے میرے پاس ایک صاحب آئے جن کے بیٹے نے تازہ تازہ ایف اے میں امتیازی نمبروں سے ناکامی حاصل کی تھی۔ فرمانے لگے کہ یہ اب آگے تو نہیں پڑھ سکتا اِسے کہیں نوکری لگوا دیں۔ میں نے اُنہیں سمجھایا کہ جیسے تیسے کرکے بیٹے کو کم ازکم گریجویشن کروا دیں لیکن وہ بضد رہے کہ اب اِسے مزید نہیں پڑھانا بس کوئی شاندار سی نوکری لگوا دیں۔اسی دوران میرے ایک دوست آگئے۔ کچھ دیر گپ شپ کی اور چلے گئے۔اس دوران پہلے والے صاحب خاموشی سے ہماری باتیں سنتے رہے۔دوست کے جاتے ہی انہوں نے کرسی تھوڑی آگے کی اورمیز پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا جھکتے ہوئے آہستہ سے پوچھنے لگے کہ آپ کے یہ دوست کیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ یو این او میں ہوتے ہیں اور بڑی شاندارتنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں بس یوں سمجھ لیں کہ زندگی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ ایک دم سے سیدھے ہوئے اور پرجوش ہوکر بولے’’بس تو پھر میرے بیٹے کو بھی وہیں لگوا دیں‘‘۔

تازہ ترین