• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ بدقسمتی سے ہم مسعود خان جیسی سفارتی و سیاسی قد کاٹھ والی شخصیت سے استفادہ ہی نہ کر سکے۔ انہیں صدر آزاد جموں و کشمیر ضرور بنا لیا مگر اس کے بعد پچھلی اور موجودہ حکومتیں امورِ کشمیر اور بھارتی آئینی و طبعی مظالم کے موسموں میں انہیں بطور ’’اضافی وزیر خارجہ‘‘ و ماہر امور خارجہ اور بحیثیت صدائے کشمیر استعمال کرنا ہی بھول گئیں۔ ویسے تو پچھلی حکومت نے تقریباً 22 ممبران قومی اسمبلی کو کشمیر کے ایلچی بھی قرار دیا تھا مگر وہ سب وزیراعظم ہی کی طرف دیکھتے رہ گئے کہ، کب کیا کریں۔ یہی رونا ہے، کہ ممبران قومی اسمبلی اور کئی کئی دفعہ بننے والے ممبران بھی کشمیر کے حوالوں سے ناتجربہ کاری و کج فہمی کی بیماری میں مبتلا رہے۔ کشمیر ایشو میں تو ہر عاقل و بالغ آدمی اپنی اپنی سطح پر ایلچی ہے پس ممبر قومی اسمبلی سطح کے لیڈر کو تو اشارہ ہی کافی ہے، اس کو مراعات یا تکلفات کا انتظامی کئے بغیر آگے کام کرنا شروع کردینا چاہئے۔ رہی مسعود خان والی بات تو شاید ماضی و حال کی پاکستانی قیادت کا اوپر سے نیچے تک یہ المیہ ہے کہ لوگ مکالمہ اور شراکت داری کو اپنے عہدے اور طنطنے کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں سو کچھ دلوں میں یہ خیال اور خطرہ گھر کرجاتا ہے، کہ کہیں ہمارے’’نمبر‘‘ نہ کم ہوجائیں، معاملہ چاہے قومی نوعیت ہی کا کیوں نہ ہو وہ اسے ’’ذاتی‘‘ بنالیتے ہیں۔

خیر، مدت سے میں منتظر تھا کہ مسعود خان سے کہیں بات ہوجائے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کسی زمانے میں میں نے ان پر ایک تنقیدی کالم لکھا ، میرے اُس وقت کے چیف ایڈیٹر نے مجھے بلایا اور کہا، میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ آپ مسعود خان سے ملاقات ضرور کریں، پھر جو چاہے لکھیں، کالم یہ بھی قابلِ اشاعت ہے مگر میں فقط بطور سینئر یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ، ایک ملاقات ضروری ہے، فیصلہ آپ ہی کا ہے۔ کچھ ایسا ہی سابق وفاقی وزراء دوستوں کا بھی خیال تھا۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ملاقات ہو اور وہ سوچ بن جائے۔ پھر کوئی ملاقات انمٹ نقوش چھوڑے تو اسے خوش قسمتی سمجھئے۔ ملاقاتوں اور پراثر ملاقاتوں میں بہرحال ایک فرق ہوا کرتا ہے، جو ملاقات قابلِ ذکر ہو وہ کوئی عام ملاقات تو ہوتی نہیں، یقینا دوسری جانب کوئی قادرالکلام، خوش گو اور بالغ نظر ہستی ہوتی ہے۔ اور یہی ملاقاتیں کئی مواقع پر وجۂ مایوسی بھی بن جایا کرتی ہیں ۔ اس مایوسی کی عموماً دو وجوہات ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ جس شخصیت سے آپ ملے اس کی باتیں آپ کے سر سے گزر گئیں، دوسری یہ کہ، آپ کی باتیں سامنے والی شخصیت کے سر سے گزر گئیں۔ تیسری ایک وجہ کا سامنا بھی ممکن ہے، کہ آپ کسی سے زیادہ توقعات باندھ لیں یا مرعوب زیادہ ہوتے ہیں، اور بعد از ملاقات جو در وا ہوتے ہیں وہ کوئی زیادہ خوشگوار دریچے نہیں کھولتے۔

اچانک دل چاہا، دیر آید درست آید کے مصداق ایک قلم کار ساتھی مرتضیٰ درانی کو ایک دن قبل کہا کہ مسعود خان سے ملنے کی تمنا ہے۔ حسنِ اتفاق کہ ملاقات کا فوری موقع مل گیا۔ مگر ایجنڈا طے نہ ہوا، ہم نے ایک غیر رسمی ہلکی پھلکی ملاقات کی استدعا کی۔ ملاقات شروع ہوئی ہے تو میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے صدر کشمیر، ماہر امور خارجہ اور چانسلر کشمیری جامعات کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے سوال کرنے شروع کردیئے جو سیر حاصل گفتگو بن گئی۔ ملاقات طوالت اختیار کرتی چلی گئی۔ اور میرے لئے یہ سب حیران کن تھا کہ اگر میں یونیورسٹیوں کے ایکٹ کی بات کرتا، تو ان کو سب کچھ ازبر تھا اور ایک ایک شق کے حافظ تھے ( حالانکہ میں باقاعدہ تیاری کے ساتھ گیا تھا)۔ اگر مسئلہ کشمیر پر سوالات کئے تو وہ بہترین وکیل، انسانی حقوق کے زیرک ترجمان اور باعث افتخار ماہر امورِ خارجہ و امورِ داخلہ لگے۔ نوجوانوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ راولہ کوٹ میں پیدا ہونے والے مسعود خان نے بحیثیت تھرڈ،سیکنڈ اور فرسٹ سیکرٹری کے علاوہ ڈپلومیٹ کونسلر و پولیٹکل کونسلر بھی اپنا کام سرانجام دیا۔ انہوں نے بطور ترجمان وزارت خارجہ سے لے کر کئی ممالک میں بحیثیت سفیر اور اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کی خدمات بھی سرانجام دیں۔

دوران گفتگو ایک دلچسپ جملہ کہتے ہیں کہ’’سیاست دان اور وائس چانسلر سے لوگ کم ہی خوش ہوتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چلتا ان سے لوگ کب اور کہاں بگڑ جائیں۔ ایک دن خوش ہوں تو اگلے ہی دن نالاں ہوجائیں گے!‘‘ مجھے سابق گورنر پنجاب جنرل (ر) خالد مقبول یاد آگئے، ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ تعلیمی گلستان بن کر کھل اٹھتے ان کی تعلیم دوستی کا یہ عالم تھا کہ لوگ انہیں گورنر تعلیم اور پنجاب کا سرسید احمد خان قرار دیتے۔ خالد مقبول کے بعد مسعود خان ایسے چانسلر دیکھے جنہیں اپنے تمام وائس چانسلرز کے عادات و خصائل کا بخوبی علم ہے ۔ آزاد کشمیر کے وائس چانسلرز ہوں یا اپنے و بیگانے سیاستدان، سبھی انہیں نستعلیق اور متحرک قرار دیتے ہیں۔ وائس چانسلرز تو کہتے ہیں کہ مسعود خان ہمارے لئے شیلڈ اور سائبان ہیں۔ (اس پر تفصیلات کبھی پھر سہی) میں سوچتا ہوں جس خوشنمائی و رونمائی و رہنمائی کو رواج موجودہ صدر کشمیر نے بخشا ہے، کیا یہ روایت آئندہ بھی رہے گی؟ میں توقع کرتا ہوں کہ مسعود خان پورے کشمیر اور کشمیریت کیلئے شیلڈ اور سائبان ہوں۔ وہ اپنی ذات میں کشمیر اور کشمیریوں کے ایک مکمل خارجی و داخلی حکیم ہیں۔ وہ دلیل کے آدمی ہیں۔ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی کہ بھارت وہ کام دو سال میں کرنے کے درپے ہے جو اسرائیل نے کئی دہائیوں میں کیا۔ اقوام متحدہ کو اس پر غور کرنا ہوگا کہ اقوام عالم کا امن کشمیر پر منحصر ہے اور انسانی حقوق کی کسوٹی بھی عالمی برادری کیلئے کشمیر ہی ہے۔ تعصب کو بالائے طاق رکھ کر اقوام عالم کو انسانیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

قارئین باتمکین ! ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ عالمی میڈیا کے ذریعے حکومت اقوام متحدہ کے ہر پلیٹ فارم اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ مسئلہ کشمیر کے سبب پوری دنیا کا امن داؤ پر لگا ہے، یہ جغرافیائی اہمیت اور فوقیت کا بھی مسئلہ ہے۔ کشمیریت کو نہ سمجھا گیا تو پورا جنوبی ایشیا ہی ایک آتش فشاں ہی بنا رہے گا ۔ اقوام متحدہ سے او آئی سی پر ہر ملک کا نیوٹرل مبصر انگلی اٹھاتا رہے گا اور کشمیرکی مظلومیت کی آہ پورے عالم پر بھاری پتھر ہو سکتی ہے!

تازہ ترین