• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
20/اپریل کو پاکستان ملٹری اکیڈمی ایبٹ آباد میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اسلام کو پاکستان سے خارج نہیں کیا جا سکتا نیز یہ کہ اسلام ہمارے اتحاد کی طاقت ہے۔ فوج کے سربراہ کے ان خیالات پر دائیں بازو کے صحافیوں اور بعض دانشوروں نے جس بے اختیار وارفتگی کا اظہار کیا ہے اور ان بظاہر سادہ ارشادات میں اپنے پارینہ اور متنازع سیاسی معتقدات کا رنگ بھرا ہے، اس سے لازم آیا کہ اس موضوع پر متبادل نقطہ نظر بھی سامنے آنا چاہئے۔ جنرل اشفاق کیانی پاک فوج کے سربراہ ہونے کے ناتے قابل احترام ہیں۔ ان کا ایک منفرد اعزاز یہ بھی ہے کہ نومبر 2007ء میں فوج کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ سیاست میں فوج کی مداخلت سے گریز کا واضح اعلان کیا ہے۔ 2008ء کے انتخابات اور پھر موجودہ انتخابی مرحلے میں ان کا کردار قابل ستائش رہا ہے تاہم فوج کی سیاست سے علیحدگی کا محض اعلان ہی کافی نہیں، فوجی رہنماؤں سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ ایسے امور پر رائے زنی سے گریز کریں گے جو خالص سیاسی بیانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک مہذب اور جمہوری معاشرے میں سیاسی بصیرت کا تقاضا سیاسی رہنماؤں سے کیا جاتا ہے۔ عسکری رہنماؤں سے پیشہ ورانہ مہارت اور تمدنی شعور کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں فوج کی سیاست میں مداخلت کی طویل تاریخ کے باعث عسکری رہنماؤں کو احتیاط کرنی چاہئے کہ کوئی گروہ ان کے خیالات کو توڑ مروڑ کر سیاسی سطح پر استعمال نہ کر سکے۔
ملٹری اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے جنرل کیانی نے پیشہ ورانہ معاملات کے علاوہ کچھ ایسے خیالات بھی ظاہر کئے جن کی ہمارے تاریخی اور سیاسی تناظر میں مخصوص تعبیر کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اسلام کو پاکستان سے خارج نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ بیان جزوی طور پر درست ہے ۔ پاکستان کے قیام کا مطالبہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے کیا گیا تھا اور اب یہاں قریباً 97فیصد مسلمان آباد ہیں۔ پاکستان میں مسلمانوں کے مفادات کو مذہبی طور پر کوئی خطرہ نہیں تاہم ایک خاص حلقہ اس حقیقت کے بیان سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ پاکستان میں اسلام کے نام پر مذہبی پیشواؤں کی ایک ایسی حکومت قائم کی جانی چاہئے جو اپنے مذہبی تصورات کی روشنی میں ریاست چلائیں۔ اس نقطہ نظر سے شہری مساوات، جمہوریت اور قومی ریاست کے دیگر تصورات کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ پاکستان سے مسلمانوں کو خارج کرنے کا واقعی تصور نہیں کیا جا سکتا اور یہ امر بھی ناقابل تردید ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور تمدنی منظر پر مسلمانوں کی چھاپ ہمیشہ نمایاں رہے گی تاہم اسی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان کا مطالبہ بنیادی طور پر اقلیتوں کے تحفظ کے لئے کیا گیا تھا۔ آج پاکستان میں 60 لاکھ سے زائد غیر مسلم شہری موجود ہیں جو آئین کے مطابق یکساں رتبہ اور حقوق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے مطالبے میں کارفرما اخلاقی اصولوں کا ناگزیر تقاضا تھا کہ یہاں پر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی کماحقہ حفاظت کی جائے۔ پاکستان حق خود اختیاری کے سیاسی اصول کی روشنی میں قائم ہوا۔ ہندوستان کے باشندوں نے ووٹ دے کر تقسیم ہند کا فیصلہ کیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت نے مسیحی اور سکھ باشندوں سے پاکستان کے حق میں ووٹ کی درخواست کی۔ 1947ء کے موقع پر ہونے والے فسادات اور تبادلہ آبادی کسی طرح بھی قیام پاکستان کے منصوبے کا حصہ نہیں تھے۔ اگر یہ حادثات پیش نہ آتے تو پاکستان میں غیر مسلم آبادی 30 فیصد کے قریب ہوتی۔ بانیٴ پاکستان نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان تھیوکریٹک (پیشوائی) ریاست نہیں ہو گا۔
پاکستان کوئی مفتوحہ سلطنت نہیں بلکہ ایک قومی ریاست ہے۔ اس عمرانی معاہدے کی بنیاد ہمارا قومی آئین ہے جس میں تمام طبقوں اور گروہوں کے مفادات میں ایک نازک توازن قائم کیا گیا ہے۔ یہ المیہ حقیقت ہمارے تمدنی ارتقاء کا حصہ ہے کہ عسکری طالع آزماؤں اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے باہم گٹھ جوڑ کے ذریعے مفادات کی فصل کاٹی اور جمہوریت کا راستہ کھوٹا کیا۔ مذہبی سیاست کے علمبردار جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام نے کبھی ووٹ کے ذریعے ان پر اعتماد نہیں کیا اور نہ آئندہ ایسا ہونے کا امکان ہے۔ چنانچہ ان حلقوں نے کبھی مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان کے فوجی ایکشن میں دست وبازو کا کردار ادا کیا،کبھی ملک کو اسلامیانے کے نام پر ضیاء الحق کا ساتھ دیا، کبھی افغان جہاد کی آڑ میں اپنے مفادات کی فصل بٹوری اور پاکستان کے سیاسی اور معاشی امکانات میں بارودی سرنگیں بچھائیں۔ انہی گروہوں نے1985ء اور 2002ء میں ریفرنڈم جیسی غیر آئینی اور غیر جمہوری مشق میں اپنا لہو گرم کیا تو کبھی آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم کی تائید کر کے جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کیں۔ پاکستان میں 97 فیصد مسلمان بستے ہیں اور پاکستان میں ایسی کسی سیاسی سوچ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہو سکتی جو ان مسلمانوں کے مفادات کے منافی ہو تاہم اسی وسیع تر مذہبی یک رنگی کے پہلو بہ پہلو فرقوں کی تقسیم بھی موجود ہے۔ پیشوائی نظام حکومت کا مطلب فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد پر مستقل لڑائی جھگڑے کی راہ ہموار کرنا ہو گا۔ پارلیمانی جمہوریت ان اختلافات سے قطع نظر تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کا واحد قابل عمل راستہ ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ مذہب قومی یکجہتی کی واحد بنیاد ہے۔
قوموں کی تشکیل میں منصفانہ معاشی بندوبست، سیاسی فیصلہ سازی میں شراکت، ثقافتی اکائیوں کے مابین ہم آہنگی اور مشترکہ معاشی مفادات جیسے بے شمار عوامل شامل ہوتے ہیں۔ اگر مذہب ایک واحد عامل کے طور پر قومی اتحاد کی ضمانت دے سکتا تو ہمارے بنگالی بھائی ہم سے جدا نہ ہوتے۔ پاکستانی فوج ہماری ریاست کی فوج ہے جسے ہماری حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کی حفاظت بھی اسی طرح پاکستانی فوج کی ذمہ داری ہے جس طرح مسلمان شہریوں کی حفاظت۔ دوسری طرف غیر مسلم شہری بھی فوج میں شمولیت کا بدیہی حق رکھتے ہیں۔ اگر غیر مسلم شہریوں کو ملک کی حفاظت میں شمولیت کا حق نہ دیا جائے تو وہ سیاسی فیصلہ سازی اور معاشی مسابقت میں مساوی شراکت سے محروم ہو جائیں گے۔ چنانچہ فوج پر کوئی خاص مذہبی تشخص مسلط کرنا درست نہیں۔ ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا نصب العین تو جنرل ضیاء الحق نے 1976ء میں پاکستانی فوج پر منڈھا تھا۔ اس سے پہلے 1948ء ، 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں شہادت پانے والے پاکستانی فوجی جوانوں نے بلاتخصیص مذہب اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کے اعلیٰ مقصد کیلئے جانیں قربان کی تھیں اور ایک قومی ریاست کی فوج کا یہی منصب ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور پیشوائیت کا مجادلہ تاریخی طور پر ہمارے سیاسی مکالمے کا حصہ ہے اور فوج کو اس کشمکش میں غیر جانبدار رہنا چاہئے۔ پاکستان کے تمام شہری سیاسی نقطہٴ نظر کے اختلافات سے قطع نظر فوج کا احترام کرتے ہیں لیکن فوج ہماری سرحدوں کی محافظ ہے، پاکستان کے اجتماعی امکان، سیاسی مکالمے اور قومی نصب العین کی محتسب نہیں۔
تازہ ترین