• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جدید جمہوری معاشروں میں قومی سطح پر ہونے والاابلاغ عامہ جاری دور کے معاشروں کی تشکیل مسلسل میں اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے ۔ پہلے معاشروں کی تشکیل کے سوتے بادشاہوں کے ذہن و مزاج اور دانشوروں کی دانش سے پھوٹتے تھے ۔ بادشاہوں کی آمریت کے منفی اثرات دانشوروں کی دانش سے متوازی ہوتے رہے اور انسانی معاشروں میں استحکام آتا گیا ۔ آج کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے معجزات نے معاشرتی تبدیلی کے جاری وساری عمل میں بے پناہ وسعت پیدا کر دی ہے ۔ تبدیلی بر پا کرنے والی انگنت آراء اور وہ سیاسی و معاشی تجزیے جو میڈیا کے ذریعے عوام الناس تک پہنچتے ہیں ، کسی قوم کی تشخص سازی میں جو کردار ادا کر رہے ہیں ، اس کی حیثیت حکومتی پالیسیوں اوراقدامات پر حاوی ہوتی جارہی ہے ، یہ کسی ریاست کے ریاستی امور میں عوامی شیئر کی انتہائی خوبصورت ، موثر اور سائنٹیفک شکل ہے لیکن ایسا تو انہی جمہوریت پذیر معاشروں میں ہو رہا ہے ، جہاں میڈیا آزاد ہے اور حاکم مختلف نقطہ ہائے نظر کے سامنے آنے کو قابو پانے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں (یااسے دل سے قبول کرتے ہیں ) آزادی ابلاغ عامہ سے محروم معاشرے آج بھی خواہ کتنے ہی امیر ، منظم اور بظاہر مستحکم ہوں ، یہ گھٹے ہوئے اور ان میں سے بعض خوشحال ہونے کے باوجود فطری انسانی ارتقاء سے محروم ہیں ، جو ان کے ساتھ ظلم عظیم ہے ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان ، دنیا کی وہ ممتاز مملکت ہے جو بلند پائے کی دانش ، راست اور باکردار قیادت اور پاور آف پین کے امتزاج کی طاقت سے وجود میں آئی ۔ جدید عالمی تاریخ کے بڑے سیاسی واقعات میں سے ایک ''پارٹیشن آف انڈیا ''کو ممکن بنا کر جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی فلاح و بہبود ، استحکام اور آزاد ی کو یقینی بنانے کے لیے جو مملکت بنائی گئی ، وہ آج بڑی مشکلات سے دو چار ہے ۔ 1971ء کے بعد آج ہم پھر بڑی گھمبیر صورت حال سے دوچار ہیں ۔تاہم موجودہ قومی صورت حال کا حوصلہ اور امید افزا ء پہلو یہ ہے کہ ہم کچھ عرصہ پہلے تعمیر اور تباہی کے جس دوراہے پر کھڑے تھے ، اس میں ہم راہ تعمیرکی جانب ابتدائی قدم بڑھا چکے ہیں ، پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں اور آگے بھی تو ہم پر جاگیر داروں ، بیوروکریٹس ، فوجی آمروں اور فراہمی انصاف کی صلاحیت سے محروم سابقہ عدلیہ کے تشکیل دیے گئے 7خاندانی نظام بد کے ڈریگنز ( بلائیں ) کھڑے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے پیچھے کھڑی بلائیں ہمیں دوبارہ اپنی طرف کھینچ کر واپس تباہی کی راہ پر لانا چاہتی ہیں تو تعمیرکے راستے پر آگے کھڑی بلائیں ہمیں جانب منزل روکنے کے لیے ہیں ۔ گویا ، اب پیچھے تو ہم جا نہیں سکتے کہ تعمیر کی راہ پر چڑھ چکے ہیں اور آگے خوفناک مزاحمت ہے ، جن سے ہمارا مقابلہ ہونا ہے ، منزل اور ہمارے درمیان فاصلوں پر کھڑی بلاؤں کو ایک ایک کر کے راہ سے ہٹاکر مقصود حاصل کر نا ہی ہمارا مشکل ترین چیلنج ہے ۔
شکر الحمد اللہ !پاکستان میڈیا کی آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہے ۔ عدلیہ اوپر کی سطح پر آزاد ، غیر جانبدار اور سرگرم بھی ہے ۔ عوام کا ایک بڑا حصہ بیدار ہو چکا ہے ۔ قومی لٹیروں کا لوٹ مار پر پردے ڈالے رکھنا اب آسان رہ گیا ہے نہ لوٹ مار کا نظام اپنی تمام تر فنکارانہ صلاحیتوں اور روایتی طاقتوں کی باہمی گٹھ جوڑ سے مسلط رہنے کی صلاحیت قائم رکھ سکتا ہے ۔ ملکی صورت حال کے اس پس منظر میں ہونے والے حالیہ تین مختلف ذرائع ابلاغ عام (جو میڈیا سے عام ہو ئے ) انتہائی اہمیت کے حامل اور ہر رنگ کے اہل فکر و نظر ، سیاسی تجزیہ نگاروں اور فالو اپ کے لیے خود میڈیا کے علاوہ عوام الناس کے غور و خوض کے متقاضی ہیں ۔ یہ ابلاغ عام تین ذرائع سے ہوا ، ایک ہماری اصلاح شدہ ( سیاسی نا وابستگی اختیار کر نے والی ) فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی ، دوسرے ،آزاد ی و غیر جانبداری اور مطلوب سر گرمی کے ٹریک پر چڑھی عدلیہ کے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری اور تیسرا سٹیٹس کو کی روایتی سیاسی قوتوں کے ( نمائندہ ) سنجیدہ اور متوازن سیاست دان جناب چوہدری شجاعت حسین ۔ کہنے کو تو یہ تین اہم قومی شخصیات کے بیانات ہی ہیں جن کا میڈیا پر آنا معمول کی بات ہے، لیکن ملک کی جس صورت حال میں تین اہم ترین شعبوں کی مکمل نمائندہ شخصیات کی جانب سے یہ ابلاغ ہوا ، یہ اہم ترین ہے، جو میڈیا میں کوالٹی کی کرنٹ افیئر پروگرامنگ میں زیادہ سے زیادہ تشریح و تجزیے کا متقاضی ہے۔ اس سے پہلے کہ اس پر خاکسار کا تجزیہ ملاحظہ فرمائیں ، مختصراً یہ دیکھ لیا جائے کہ تینوں معتبر شخصیات نے کہا کیا ہے ۔
جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کاکول اکیڈیمی میں ہفتے کو لانگ کورس اور مجاہد فورس کی پاسنگ آؤٹ پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اسلام ہمارے اتحاد کی طاقت ہے ، اسے پاکستان سے خارج نہیں کیا جا سکتا ۔ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ ہم نے اشتعال انگیز بیانات پر تحمل کا مظاہر کیا۔ قوم اور فوج متحد ہیں اور ہم کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ''۔ ادھر اتوار کو اسلام آباد میں عالمی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری نے کہا ''ہم نے اسٹیٹس کو توڑ دیا ہے ۔ جج کسی شخص کے منصب کی وجہ سے رعایت نہیں دیتے ۔ بہتر حکمرانی کے دن دور نہیں ۔ جمہوری حکومت نے عدلیہ کی وجہ سے پانچ سال پورے کیے ۔ اسے عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ عدالتی نظام جمہوریت کا محافظ ہے ، سو کسی طالع آزما کے لئے اب کوئی گنجائش پیدا نہ ہوگی۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اسے بس اچھی حکمرانی کی ضرورت ہے''۔ تیسر ا ابلاغ عام جناب چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے ہوا۔
انہوں نے اتوار کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا '' جنرل (ر)مشرف کے خلاف غدار ی کے مقدمے میں جلد بازی کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔ یہ صرف پرویز مشرف کی ذات کا مسلہ نہیں ، پینڈورا بکس جائے گا ۔ کسی ایک فرد یا ادارے کی تذلیل خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے ۔ہمیں ماضی کے ہاتھوں یرغمال بننے کی بجائے عوام کے بنیادی مسئلہ کے حل کے لیے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے''۔اول الذکردونوں ابلاغ میں جنرل کیانی اور چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے اپنے اداروں ( فوج اور عدلیہ)کے گزشتہ پانچ سال کے کردار اور حالیہ عزم کی نشاندہی ،پھر آئندہ کے کردار پر اپنے عزم کا اظہار کیا ہے، جو واقعات اور حالت کی روشنی میں واقعی درست ہے۔ دونوں اداروں کا حالیہ ریکارڈ اور مستقبل کے عزم کے اظہار سے ان کی اصلاح اور راہ راست اختیار کر نے کے واضح نشاندہی ہو تی ہے ۔ یوں ہر دو اہم ترین قومی شخصیات کے یہ بیانات محض شخصی ابلاغ نہیں ، قوم کے لیے بے پناہ حوصلہ افزا ء اور امید کا پیغام ہے جو قوم میں بھی روشن مستقبل کا عزم پیدا کرتے ہیں۔ انتخابی سکروٹنی کے دوران آئین کی آرٹیکلز 62،63پر غیرمعمولی تنقید کر کے اصل حالت میں بحال شدہ آئین کو پھر سے متنازعے بنانے کے لیے جو منفی ابلاغ عام ہو ا، غالباً جنرل کیانی نے انہی بیانات کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے کہ یہ متفق آئین پر کھلم کھلا تنقید تھی ، یا شاید فوج پر تجاوزسے حدتک تنقید( جو غیر آئینی ہے ) اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتی ہے ۔
چیف جسٹس صاحب نے اسٹیٹس کو کے ٹوٹنے میں عدلیہ کے کر دار کی جو بات کی ہے ، یوسف رضا گیلانی کی عدلیہ کے ذریعے وزارت اعظمی اور انتخابی اہلیت سے محرومی ان کی تائید کرتی ہے ۔ اسٹیٹس کو مزید کیسے ٹوٹ رہا ہے ؟ اس پر خاکسار اپنا مفصل تجزیہ7 اپریل کے کالم ''چٹختا اسٹیٹس کو '' میں پہلے ہی پیش کر چکا ہے ، لیکن یہ موضوع سنجیدہ اور صاحبان نظر تجزیہ نگاروں کی مزید تشریح و تجزیے کاشدت سے محتاج ہے ۔ جہاں تک چوہدری شجاعت حسین کے سابق صدر جنرل ( ر) پرویزمشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کی خبروں اور گرفتاری پر ابلاغ کا تعلق ہے ، یہ روایتی حکمران طبقے کو آنے والے حالت سے بچانے کی فکر سمیٹے ہوئے ہے ۔ چوہدری صاحب اسٹیٹس کو کے جاری نظام کے نمائندہ سیاست دان ہیں اور بلند سیاسی شعور کے حامل ۔
انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنے تمام ''پیٹی بھائیوں ''کو بالواسطہ انتباہ کیا ہے کہ پرویز مشرف کے احتساب پر بغلیں نہ بجاؤ ، اس کے سنگین نتائج نکلیں گے ۔چوہدری صاحب کایہ تجزیہ بھی سو فیصد درست معلوم دیتا ہے کہ ''معاملہ پرویز مشرف کی ذات کا نہیں ، پینڈورا بکس کھل جائے گا ''۔ لیکن چوہدری صاحب نے جس کو ''سنگین نتائج'' کہا ہے ، وہ تو اسٹیٹس کو کی قوتوں کے لیے سنگین ہوں گے ، عوام کی تو یہ تمنا ہے ۔ جس کو وہ پینڈورا بکس کھلنا کہہ رہے ہیں ، استحصال زدہ عوام کے نزدیک وہ بے رحمانہ اور ہمہ گیر احتساب ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ جو آئین و قانون شکنی یا اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا اس کے خلاف قانونی کاروائی ہر صورت ہو ، جیسے ان کے خلاف ہوتی ہے ۔ چوہدری صاحب کا اپنے پیٹی بھائیوں کو یہ انتباہ تو عوام کی تڑپ ہے ۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس احتساب میں برہمن کے درجے پر فائز رہنے والے شودر بن کر عدالتوں میں لائے جائیں گے تو اسی سے مطلوب احتساب قائم ہوگا ، خواہ اس میں کوئی آئے لیکن آئین توڑنے اور اس کی جملہ خلاف ورزیوں پر سب کو حصہ بقدر جثہ ، جو ملنا ہے ملے ۔ معاشرے کی تطہیر ہو ۔ پاکستان ، اسلامی جمہوریہ بنے ، عوام کی فلاح ہو اور ان کی حکومت بھی ۔ سات خاندانی نظام سیاست سے جان چھوٹے ۔ چوہدری صاحب کی طرح تو دوسرے سیاست دان بھی سوچ رہے ہیں، چوہدری صاحب اسے لیے تعریف کے مستحق ہیں کہ جو سوچ رہے ہیں وہ کھل کر کہہ بھی رہے ہیں ۔ لیکن عوام سوچیں کہ انہیں ایک ہمہ گیر قومی احتساب مطلوب ہے یا پرویز مشرف سمیت اسٹیٹس کو کے تما م ماضی وحال کے قانون شکنوں کو محفوظ کر نے والا ایک اور این آر او ؟
تازہ ترین