• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابی مہم زوروں پر ہے ، دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹوں کا مسئلہ ہنوز حل طلب، نگرانوں اورالیکشن کمیشن کی کمزوریاں اپنی جگہ ، پرویز مشرف کے مقدمات کاچرچا ، ایم کیو ایم کی جانب سے انتخابی دفاتر بند کرنے کااعلان ، عمران خان کی طرف سے نواز شریف کو مناظرے کی دعوت ، افراتفری کاایک ماحول اور تمام صورتحال میں پڑھے لکھے وکلا ء کی جہالت بھری کارروائیاں، یہ ہے منظر میرے پورے دیس کا۔ جہاں مسائل کے انبوہ کثیر پر سیاست چمکانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ پرانے چہرے بھی تبدیلی کی باتیں کررہے ہیں ۔
عمران خان نے تبدیلی کانعرہ کیا لگایا کہ سب کو تبدیلی یاد آگئی ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ لوگ جو پچھلے پچیس چھبیس سالوں سے مختلف حیلے بہانوں سے باریاں لگاتے ہوئے اقتدار میں رہے ، وہ بھی تبدیلی کی باتیں کررہے ہیں ، لوگوں کواک نیا بے ثمر خواب دکھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وہ اس کوشش میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گھر میں کم از کم چار مرتبہ وزارت اعلیٰ رہی ، دومرتبہ وزارت عظمیٰ رہی ، وہ اس دوران لوگوں کے مسائل حل نہ کرسکے ، لوگوں کی آسوں اور امیدوں کو پورا نہ کرسکے ، اب کیا خاک کریں گے ۔
یہاں ایک بات اور لکھتا چلوں کہ لیڈر ہمیشہ بہادر اور نڈر ہوتا ہے ، بھٹو صاحب کے بیرونی دنیا میں مراسم نواز شریف سے کہیں زیادہ تھے مگر بھٹو نے بہادری دکھائی اور پھانسی کوقبول کرلیا جبکہ میاں نواز شریف حالات کا مقابلہ ہی نہیں کرسکے انہوں نے جدہ جانے میں عافیت سمجھی۔ ایک تاریخی معاہدے کے بعد ان کی ”رخصتی“ ہوئی ۔ قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ پہلے اس معاہدے ہی سے ن لیگ انکاری رہی پھر ماننا شروع کیا ، منوانے کے لئے ایک سعودی شہزادے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرنا پڑی اور ہاں مجھے تو وہ پریس کانفرنس بھی رہ رہ کے یاد آتی ہے جس میں جاوید ہاشمی ، میاں برادران کی طرف داری کررہے تھے ، ان کی خاطر معاہدے سے انکار کررہے تھے مگر پھر اچانک میاں برادران کے ہمدرد چوہدری نثار علی خان نمودار ہوئے اور کہنے لگے کہ نہیں ہاشمی صاحب کو پورا پتہ نہیں ، ایک معاہدہ ہوا تھا مگر وہ پانچ سال کا معاہدہ تھا ۔ اگر ہم چوہدری صاحب کی بات کوسچ سمجھ لیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا تھا تو میاں برادران پانچ سال بعد کیوں نہ آسکے؟
خواتین وحضرات ! معذرت خواہ ہوں کہ مجھے بہادری اور بزدلی کاقصہ ماضی میں لے گیا ورنہ بات تو آج کی کرنا تھی۔ آج کل جلسے زوروں پر ہیں میرے پاس انہیں مانیٹر کرنے کیلئے ٹی وی یا اخبارات ہیں ۔ ٹی وی اور اخبارات کی گواہی کے مطابق عمران خان سب سے آگے ہے ، اس وقت بڑے بڑے جلسے عمران خان ہی کررہا ہے اگرچہ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بڑی بھاگ دوڑ کررہے ہیں مگر ان کے جلسوں میں وہ رش دکھائی نہیں دے رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا پھر ایک بات اور ہے کہ ایک دن میں جتنے جلسے عمران خان کرتا ہے کوئی اور رہنما اتنے جلسے نہیں کرپاتا۔ عمران خان تو ایک ایک دن میں بڑے بڑے جلسوں کی ہیٹ ٹرک کررہا ہے، دوسرے کسی میں دم نہیں ۔ پیپلزپارٹی ویسے ہی جلسوں سے نکل کر جدید ٹیکنالوجی پر آگئی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری ٹی وی خطاب کرتے ہیں ، ٹوئیٹر پر پیغامات دیتے ہیں پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کا بھرپور استعمال اگر کوئی کررہا ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے ۔عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز لاہور میں ایک شاندار ریلی کے ذریعے کیا ۔ اس ریلی کودیکھ کر ہمارے کچھ دوست تجزیہ کار حیران ضرور ہوئے کہ اتنی بڑی ریلی ۔ ن لیگ نے جواباً ایک جلسہ میانوالی میں کیا ۔ اس جلسے سے ن لیگ کے سب سے جوشیلے مقرر میاں شہباز شریف نے خطاب بھی کیا مگر افسوس کہ اس جلسے میں صرف چند سوافراد شریک ہوسکے ، اخبارات اور ٹی وی فوٹیج گواہی کے لئے کافی ہے ۔ اسی روز عمران خان کا کرک میں شاندار جلسہ تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان کے تمام جلسے ہی شاندار تھے تو غلط نہیں ہوگا ۔
جوش میں شہباز شریف سب سے آگے مگر جلسوں میں عمران خان سب سے آگے ہے۔ عمران خان کے جلسوں میں نوجوان بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں ویسے بھی یہ بوڑھوں کاکام نہیں جوانوں کاکام ہے ۔
جیسے جیسے انتخابی مہم زور پکڑ رہی ہے دہشت گرد اپنی کارروائیاں بڑھا رہے ہیں دوروز پہلے انہوں نے دوشہروں کوجام کرکے رکھ دیا تھا شاید امن فراہم کرنا نگرانوں کے بس سے باہر ہے ۔ مجھے کچھ لوگ اسکروٹنی پر بار بار پوچھتے ہیں، میں انہیں کیا بتاوٴں کہ کونسی اسکروٹنی؟ جو ریٹرننگ آفیسر کے سامنے نااہل ہوا ، وہ الیکشن ٹربیونل میں اہل ہوگیا اور اگر کوئی الیکشن ٹربیونل میں نااہل ہوا تو وہ پھر ہائی کورٹ میں اہل قرار دے دیا گیا ، کونسی ڈگریوں کے قصے ، کونسے صادق، امین اور کونسے ڈیفالڑز ، دل چاہتا ہے ایسی اسکروٹنی پر ماتم کیا جائے۔ ذائقے کی تبدیلی کیلئے تازہ غزل کے دوچار اشعار
تھوڑی سی بے وفائی تھوڑے سے پیار میں تھی
گاڑی مسافروں کے پھر انتظار میں تھی
اک کونج رورہی تھی سوکھی ہوئی ندی پر
سہمی ہوئی سی لرزش اس کی پکار میں تھی
سگریٹ حشیش کے ہم سلگارہے تھے دونوں
غم سے نجات شاید خود سے فرار میں تھی
میں چاہتا تھا اس سے وعدہ نبھانا لیکن
مظہر مگر محبت کب اختیار میں تھی
تازہ ترین