• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوکہ یہ کہانی ثبوتوں کے ساتھ دوست رؤف کلاسرا کئی بار سنا چکے، مگر کہانی ایسی کلاسیک ،دل چاہ رہا میں بھی سناؤں ،یہ پاکستان کہانی،ہم کیوں بھکے ننگے ، ہم کیوں در در کے منگتے ،کیوں ہمارا ہر ادارہ موہنجوداڑو ، کیوں ملک لیرولیر، یہ کہانی سن لیں ،سب واضح ہوجائے گا، پیپلز پارٹی حکومت ختم ہوئی، لیگی حکومت آئی، ایک روز وزیراعظم نواز شریف کو بتایا گیا۔

پاکستان عالمی عدالت میں ترکش کمپنی کیخلاف مقدمہ ہار چکا، اب 1.2ارب ڈالر جرمانہ دینا ہوگا، نواز شریف نے انکوائری کمیٹی بنائی، پتالگایا جائے یہ کیسے ، کیوں ہوا، انکوائری شروع ہوئی، حیران کن انکشافات،پتاچلا، 2008میں پی پی حکومت آئی، بجلی بحران عروج پر تھا، حکومتی فیصلہ ، کرائے کے بجلی گھر وں سے بجلی کی کمی پوری کی جائے ، راجہ پرویز اشرف پانی وبجلی کے وزیر، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا بینہ سے پالیسی منظور ہوئی ، 180ارب مختص ہوئے۔

دنیا بھر سے کمپنیوں ،پارٹیوں سے بولیاں طلب کی گئیں ،ترک کمپنی کارکے نے بھی اپلائی کیا، اسے 565ملین ڈالر کا کنٹریکٹ ملا، کمپنی نے 231میگا واٹ بجلی پیدا کرکے دینا تھی، ترک کمپنی نے آزاد کشمیر کی ایک اہم شخصیت کے بیٹے کو ایک لاکھ ڈالر تنخواہ پر اپنا کنٹری منیجر رکھ لیاتھا۔

ترک کمپنی نے وزیروں ،سرکاری بابوؤں سے بات چیت شروع کی ، اندر کھاتے مُک مکا ، کمیشن طے ہوئے، کھیل شروع ہوا، کابینہ منظوری کے بنا ایڈوانس 7فیصد سے 14فیصد ہوا ،یوں ترک کمپنی کو 35ملین ڈالر کی بجائے 70ملین ڈالر ایڈوانس ملا، معاہدے میں ایک شق تھی کہ ترک کمپنی نے فیول خود خریدنا تھا، یہ شق ختم کرکے نئی شق یہ ڈالوائی گئی کہ فیول حکومت پاکستان خرید ے گی، یہ واردات تب کے پانی وبجلی کے سیکرٹری نے ڈالی ،یہ بعد میں وعدہ معاف گواہ بنے۔

نیب کے سامنے تحریری طور پر مانا کہ اس کا م کیلئے انہوں نے 4کروڑلئے، معاہدے کے تحت ترک کمپنی نے 231میگا واٹ بجلی بنا کر دینا تھی مگر ایک دن پتا چلا کہ کمپنی صرف 40سے 50میگا واٹ بجلی پیدا کررہی ،اس پر ترک کمپنی کے بجلی گھر کےرئیلٹی ٹیسٹ کا فیصلہ ہوا، تاکہ پتاچلے واقعی کم بجلی پید ا ہورہی، اب 7دن مسلسل بجلی گھر چلایا جانا تھا، ہالینڈ کی کمپنی نے وہ ٹیسٹ کیا، تین دن بعد کار کے بجلی گھر ٹرپ کر گیا، اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ معاہدہ کینسل کر دیا جاتا، مگر چونکہ سب فیصلہ ساز بک چکے تھے ، لہٰذا ایک جعلی رئیلٹی ٹیسٹ کا بندوبست کیا گیا۔

جس پاکستانی افسر نے وہ جعلی ٹیسٹ کیا ،اسے ترک کمپنی نے پیسوں کے علاوہ 3سونے کے کڑے بھی دیئے، جو اس نے اپنے ڈرائیور کی بیٹی کے بینک لاکر میں رکھوائے، جہاں سے بعد میں نیب نے یہ کڑے برآمدکئے، ظاہر ہے اس جعلی ٹیسٹ میں ترک کمپنی نے پا س ہونا تھا ،ترک کمپنی پاس ہوگئی۔سیکرٹری پانی وبجلی نے ایک کام یہ بھی کیا کہ معاہدے میں لکھوادیا اگر ترک کمپنی بجلی کم پید اکرے تو بھی ادائیگی 231میگا واٹ کے حساب سے ہوگی، یوں 40سے 50میگا واٹ بجلی کے بدلے ادائیگی 231میگاواٹ کی ہوتی رہی، یہ سب کچھ جب باہر نکلا تو پہلے خواجہ آصف اور بعد میں فیصل صالح حیات سپریم کورٹ پہنچ گئے، معاملہ سپریم کورٹ گیا تو ترک کمپنی نے پیشکش کی ہم اضافی لئے گئے 18ملین ڈالر واپس کر دیتے ہیں ، اس پر نیب کمیٹی بنی۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ 18ملین ڈالر لیکر معاہدہ کینسل کر دیاجائے، اس پر فیصل صالح حیات کا مؤقف تھا کہ جب کمپنی 160ملین ڈالر اضافی لے چکی ، اسے صرف 18ملین ڈالر لیکر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے، اس پر ایک اور کمیٹی بنی،جس نے 125ملین ڈالر کا بل بنا کر ترک کمپنی کو بھجوایا دیا۔

ترک کمپنی نے یہ بل دینے سے انکار کردیا اور پہلے خفیہ طور پر نیب افسران کو مال پانی لگا کر یہ این اوسی لے لیا کہ اس کنٹریکٹ میں کرپشن نہیں ہوئی، پھر یہ این اوسی لے کر ترک کمپنی عالمی عدالت انصاف جا پہنچی اوروہاں پاکستان پر کیس کر دیا کہ ہمارا جہاز روکا گیا، ہم پر الزامات لگائے گئے، ہماری ساکھ خراب ہوئی، ہمیں کئی ملین ڈالر نقصان ہوا ،ترک کمپنی نے 1.2ارب ڈالر ہرجانے کا کیس کیا اور کیس جیت گئی۔

اب دو راستے تھے ،ہرجانہ دیا جائے یا ترک کمپنی کنڑیکٹ کی بے ضابطگیاں ،کرپشن کے ثبوت حاصل کرکے فیصلے کیخلاف اپیل کرکے کیس جیتا جائے ،دوسرا راستہ چنا گیا، وزیراعظم نوازشریف کی بنائی کمیٹی نے کام شروع کیا، بعد میں عمران خان حکومت آئی تو عسکری قیادت نے معاملے کو سنبھالا ،3رکنی کمیٹی کے کام میں تیزی آئی، ایک روز ترک کمپنی کے کنڑی منیجر کی ورجن آئی لینڈ میںآف شور کمپنی نکل آئی۔

جہاں کارکے رشوت کے پانچ ملین ڈالر جمع ، تحقیق آگے بڑھی، معلوم ہوا،انہوں نے اپنی بھانجی کے خاوند کے ذریعے دبئی سوئس بینک میں اکاؤنٹ کھولا ہوا، ورجن آئی لینڈ سے پیسے اس دبئی سوئس بینک میں ٹرانسفر ہوتے اور پھر آگے پاکستانی حکمرانوں ،بیورکریسی کے سوئس اکاؤنٹس میں پیسے ٹرانسفر ہوتے ، مطلب سیاستدانوں، افسران کو ادائیگیاں ہوتیں۔

پاکستانی انکوائری ٹیم نے سوئس ،دبئی بینکوں سے ریکارڈحاصل کیا، پانامہ، برٹش ورجن آئی لینڈسے دستاویزات حاصل کیں اور کرپشن کے یہ سب ثبوت عالمی عدالت میں پیش کردیئے ، اس پرکارکے کمپنی 6بین الاقوامی اداروں سے پاکستان کیخلاف مقدمات واپس لینے پر مجبور ہوئی ، پاکستان 1.2ارب ڈالر ہر جانے سے بچا۔

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ بحال ہوئی،اب یہ تو اچھا ہواکہ تین رکنی انکوائری کمیٹی کو شاندار خدمات پر سول ایوارڈ ملے لیکن ترک کمپنی بلیک لسٹ اور بھاری جرمانوںسے کیسے بچ گئیں۔

ترک کمپنی کو فیس سیونگ کیسے ملی،اس حوالے سے نیویار ک میں تر ک صدر طیب اردوان اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی،اس گفتگو کا نتیجہ کیا نکلااور عمران خان کا ٹوئیٹ ،سب کریڈٹ ترک صدرکو کیسے ، دوست رؤف کلاسرا کی کہانی کا یہ حصہ پھر کبھی ، لیکن سجنو ،بیلیویہ ہے پاکستان کہانی۔

تازہ ترین