• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ برسات نے کراچی میں جو تباہی مچائی ہے، اس نے کراچی میں رہنے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس غریب پرور شہر کا کوئی والی وارث نہیں۔ دنیا کا پانچواں بڑا شہر جو پاکستان کا معاشی، صنعتی، کمرشل اور فنانشل حب ہے، ایک ہفتے سے زیادہ پانی میں ڈوبا رہا جس سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ۔ ایدھی کے مطابق 27 اگست کی بارش سے پانی میں ڈوب کر اور کرنٹ لگنے سے خواتین اور بچوں سمیت 49افراد ہلاک ہوئے۔ ماہرین کے مطابق کراچی میں نالوں سے پانی کی عدم نکاسی کا سبب کچرے کی صفائی نہ ہونا ہے۔ اس بار کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں 6دن سے زائد بجلی فراہم نہیں کی جاسکی لوگ اندھیرے میں مدد کیلئے فون کرتے رہے جبکہ موبائل نیٹ ورک بھی بند رہا جس سے یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ ہم جدید دنیا کے کسی مہذب معاشرے کا حصہ ہیں۔میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ یہ شہر کی بدقسمتی ہے کہ اس کی اونر شپ کسی سیاسی جماعت نے نہیں لی۔ یہ شہر ملک کے مجموعی ریونیو کا 58 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، پورے پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کرتا ہے اور پھر وہ لوگ یہیں بس جاتے ہیں۔ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے لیکن گزشتہ مردم شماری میں ایک کروڑ 60 لاکھ آبادی ظاہر کی گئی جس کی وجہ مضافاتی علاقوں کو شہری آبادی سے نکال دینا تھا جبکہ دیگر صوبوں میں تمام ڈویژنز شہری آبادی میں شامل ہیں۔ اس شہر کی منصوبہ بندی کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس کی مردم شماری دوبارہ کی جائے تاکہ ایک صحیح ڈیٹا حاصل کیا جاسکے۔ بدقسمتی دیکھئے کہ کراچی کا جدید ماسٹر پلان دستیاب نہیں جس کے بغیر کسی بھی شہر کی منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی۔ کراچی کی حقیقی آبادی کی بنیاد پر اس کا حصہ 289ارب روپے جبکہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کی بنیاد پر حصہ 788 ارب روپے بنتا ہے۔ اس کے علاوہ جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کی بنیاد پر اس کا حصہ 957 ارب روپے جبکہ مقامی کاروباری سرگرمیوں پر سیلز ٹیکس کے حساب سے اس کا حصہ 1449 ارب روپے بنتا ہے۔ معیشت دان متفق ہیں کہ کراچی اپنی مقامی کاروباری سرگرمیوں پر 700 سے 1000 ارب روپے سالانہ ٹیکس حاصل کرتا ہے جو پاکستان کے مجموعی ٹیکس کا تقریباً 20 سے 25 فیصد ہے لیکن یہ پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے،یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ سندھ کے بجٹ میں صرف 30 سے 35 ارب روپے کراچی کیلئے مختص کئے جاتے ہیں جس میں سے زیادہ تر رقم کراچی سے باہر کے منصوبوں پر خرچ کردی جاتی ہے۔ اِسی طرح سندھ کے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 340 ارب روپے رکھے جاتے ہیں جس میں سے تقریباً 300 ارب روپے کراچی سے باہر کے منصوبوں کیلئے ہوتے ہیں۔ صوبائی اور مقامی حکومت میں تنازع کی وجہ سے شہر کا انفرااسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا۔ میئر کراچی کی مدت ختم ہونے پر اب کراچی کے سابق کمشنر افتخار شلوانی کو کے ایم سی کا ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا ہے۔ شلوانی صاحب کی کمشنر کراچی کی حیثیت سے نہایت شاندار خدما ت ہیں اور ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اُن سے اُمید کی جارہی ہے کہ وہ شہر کی بہتری کیلئے عملی اقدامات کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان گزشتہ دنوں ایک روزہ دورے پر کراچی آئے جس میں انہوں نے 1113 ارب روپے کے 3 سالہ ’’کراچی پیکیج‘‘ کا اعلان کیا اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی سربراہی میں صوبائی رابطہ عملدرآمد کمیٹی (PCIC) تشکیل دی گئی، جس میں وفاق، صوبے، فوج اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے نمائندے شامل ہیں۔ میری وزیراعظم کو تجویز ہے کہ اس کمیٹی میں اچھی شہر ت رکھنے والے پرائیوٹ سیکٹر کے ایک یا دو نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ پیکیج کے فیز 1منصوبے ایک سال اور فیز 2 تین سال کی مقررہ مدت میں مکمل ہوسکیں۔ ’’کراچی پیکیج‘‘ میں پانی کی سپلائی کیلئے 92 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں 3 سالہ K-4 منصوبہ بھی شامل ہے۔ پیکیج میں سیوریج اور پانی کی نکاسی کیلئے 141 ارب روپے، نالوں کی صفائی اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کیلئے 267 ارب روپے، ماس ٹرانزٹ، سرکولر ریلوے اور ٹرانسپورٹ کیلئے 572 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ نالوں کی صفائی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کریگی جبکہ تجاوزات کے خاتمے میں بے گھر ہونے والوں کی آبادکاری کی ذمہ داری حکومت سندھ پر ہوگی۔ کراچی کیلئے اس سے پہلے بھی کئی پیکیجز کا اعلان کیا جاچکا ہے لیکن بروقت رقم کی ادائیگی اور موثر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان پیکیجز کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے لیکن ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوسکی ہے کہ وزیراعظم کے 1113 ارب روپے کے پیکیج میں کیا 802ارب روپے کے جاری منصوبوں اور 162رب روپے کا وزیراعظم کا گزشتہ کراچی پیکیج بھی شامل ہے یا وہ اسکے علاوہ ہیں۔کراچی میں بارشوں کی تباہی کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کے علاوہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کراچی میں بزنس مینوں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں یقین دلایا کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بے شمار قدآور شخصیات نے احساس دلایا ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتیں کراچی شہر کو وہ مقام دلانے میں ناکام ہوچکی ہیں جو اس کا حق ہے اور منصب بھی لہٰذا کراچی کی ترقی کیلئے ہمیں ایک منظم تحریک شروع کرنا ہوگی جس میں ہر وہ شخص شامل ہو جس کا مستقبل بالعموم پاکستان اور بالخصوص کراچی سے جڑا ہے، اس کے والدین یہاں دفن ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اُس کے بچوں کو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں، میرٹ پر ملازمتیں، انصاف اور روشن مستقبل مل سکے ۔کراچی کی حالت زاردیکھ کر میںیہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ’’کراچی یہ تیرا مقدر تو نہیں۔‘‘

تازہ ترین