• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے ’’ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان ‘‘ یعنی کراچی کو تبدیل کرنے کے منصوبے کے تحت اس شہر کے لئے1100ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کر دیا ہے اور یہ نوید سنائی ہے کہ اس پیکیج کے تمام منصوبے آئندہ تین سال میں مکمل ہو جائیں گے اور کراچی کے سارے بڑے مسائل حل ہو جائیں گے ۔

کیا کراچی کو تبدیل کرنے کے نعرے پر یقین کر لیا جائے ؟ کیا کراچی میں تبدیلی آئے گی ۔ سب سے بڑا مسئلہ مالی وسائل کا ہے مالی وسائل دستیاب نہ ہوئے تو نہ صرف کراچی پیکیج پر عمل درآمد نہیں ہو سکے گا بلکہ لوگوں کی امید مایوسی میں تبدیل ہو جائے گی ، جو انتہائی خطرناک بات ہو گی۔

گزشتہ سو سال کا ریکارڈ توڑنے والی حالیہ مون سون کی بارشوں نے کراچی میں جو تباہی مچائی ، اس کے بعد پہلے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی کیلئے802 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا اور دو دن کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کراچی آکر 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ۔ کہیں یہ پیکیجز اس چیخ و پکار کو ختم کرنے کے لئے عجلت میں تو نہیں دیئے گئے ، جو بارش کی تباہ کاریوں کے باعث برباد شہریوں نے شروع کی تھی ؟ کیا یہ ماضی کی طرح کراچی پر صرف سیاست تو نہیں ہو رہی ؟

اگر ان سوالوں کے جوابات نفی میں ہیں تو پھر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1100 ارب روپے کہاں سے آئیں گے ؟ یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ وزیر اعظم کے 1100ارب روپے کے پیکیج میں 802 ارب والا سندھ حکومت کا پیکیج ہے اور اس میں وفاقی حکومت نے تقریباً 300ارب روپے کا اضافہ کیا ہے ۔

اگرچہ سندھ حکومت کے مجوزہ پیکیج کےلئے وفاقی حکومت بھی میچنگ فنڈز فراہم کرے گی لیکن یہ ترقیاتی پیکیج بنیادی طور پر سندھ حکومت کا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ یہ پیکیج وفاقی اور سندھ حکومت نے مل کر بنایا ہے ۔

تین سال میں تین مرحلوں میں اگر 1100 ارب روپے کے تمام منصوبے مکمل کرنا ہیں تو اس کیلئےہر سال 366ارب روپے درکار ہوں گے ۔ رواں مالی سال کے دوران 802 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کیلئے سند ھ حکومت نے صرف 31.99 ارب روپے مختص کر رکھے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کے ترقیاتی پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) میں سے کراچی سمیت سندھ کے تمام منصوبوں کیلئے صرف 8.3ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

مختص رقم کبھی بھی پوری جاری نہیں ہوتی ۔ اگر جاری ہو بھی جائے تو رواں مالی سال کے دوران کراچی ترقیاتی پیکیج کیلئے صرف 35سے 36ارب روپے دستیاب ہونگے ۔ رواں سال ہی مزید تقریبا 331 ارب روپے مزید درکار ہوں گے۔ 

کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں اتنی بڑی رقم کا انتظام کر سکیں گی ؟ حقیقت یہ ہے کہ دونوں حکومتوں کے پاس اتنی مالیاتی گنجائش ہی نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کر سکیں ۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پچھلے پانچ سالہ دور میں خواہشوں پر مبنی ترقیاتی بجٹ بناتی رہی اور 300 ارب روپے سے زیادہ کے ترقیاتی بجٹس کا اعلان کرتی رہی لیکن سال کے آخر میں اس بجٹ کی آدھی رقم بھی فراہم نہ کر سکی ۔ گزشتہ دو سال سے ترقیاتی بجٹ کا اعلان ہی کم کیا جا رہا ہے ۔

پھر بھی سندھ حکومت 130 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ حکومت کی پورے صوبے کے ترقیاتی بجٹ کےلئے زیادہ سے زیادہ مالیاتی گنجائش 150 ارب روپے تک ہے ۔ اس میں وفاقی حکومت اور غیر ملکی امداد بھی شامل ہو گی ۔ اسی طرح وفاقی حکومت بھی گزشتہ کئی سال سے صوبوں کے لئے اپنے ترقیاتی بجٹ میں 500 سے 600ارب روپے تک مختص کرتی ہے لیکن سال کے آخر میں صوبوں کو 200 سے 250 ارب روپے تک ملتے ہیں ۔ سندھ کو تو گزشتہ پانچ سال میں 20 ارب روپے سے زیادہ رقم نہیں ملی ۔

اس سال وفاقی حکومت کے صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص 674ارب روپے میں سے سندھ کے لئے صرف 8.3ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ سالانہ ترقیاتی بجٹ کے لئے سندھ حکومت کی زیادہ سے زیادہ مالیاتی گنجائش 150ارب روپے ہے جبکہ وفاقی حکومت کے تمام صوبوں کے ترقیاتی بجٹ کے لئے زیادہ سے زیادہ مالیاتی گنجائش 200 ارب روپے ہے ۔

اگر سندھ حکومت اپنا سارا ترقیاتی بجٹ صرف کراچی پیکیج کےلئے مختص کرے اور وفاقی حکومت بھی چاروں صوبوں کے حصے کا سارا 200 ارب روپے بھی کراچی پیکیج کے لئے دے دے تو پھر بھی اس پیکیج کے لئےسالانہ 366ارب روپے کی رقم پوری نہیں ہو گی ۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے ان سالانہ ترقیاتی بجٹس میں سی پیک سمیت غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبے بھی شامل ہیں ۔

یہ اچھی بات ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں اورفوج بھی کراچی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک پیج پر آ گئی ہیں ۔ سب کو ایک پیج پر لانے کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے ؟ یہ ایک الگ سوال ہے مگر اس ہم آہنگی کو جاری رہنا چاہئے بلکہ ہم آہنگی کو سیاسی عزم ( پولٹیکل ول ) میں ٹرانسفارم ( تبدیل ) ہونا چاہئے ۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ کراچی پیکیج پر عمل درآمد اور مانیٹرنگ کیلئے ایک کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے لیکن سوال وہی ہے کہ وسائل کہاں سے آئینگے ۔

وسائل کی دستیابی کیلئے ہی کوئی حکمت عملی وضع کرنا ہو گی اور یہ سب کچھ ممکن ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی دارلحکومت ہے کراچی کو منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی اور لاقانونیت کے ذریعے تباہ کرنیوالی قوتیں بھی کراچی کی ٹرانسفارمیشن کی مخالفت کرینگے ۔

یہ پیکیج اگر صرف سیاسی نعرہ ہوا تو پھر کراچی کے لوگوں کو بہت مایوسی ہو گی جس کے نتائج کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔

تازہ ترین