• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آغاز سے ہی نحیف حکومتی عمل میں نیم جمہوری حکومتوں کا بار بار تعطل اور مارشل لاز کے طویل نفاذ کا تسلسل ہی ختم ہی نہ ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی جڑ ہے۔یوں ہر دور میں ہونے والی ترقی ریورس ہوتی رہی۔اس مستقل سی کیفیت نے ملکی تعمیر کے عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔بڑی تشویش ہے کہ یہ سلسلہ ختم ہی نہیں ہو رہا، ہر صوبہ ہی بے قابو بگڑی صورت سے اپنے طور بری طرح متاثر ہوا ہے۔آمرانہ حکومتوں سے تو ڈیزاسٹرز کی ہر وقت توقع کی جا سکتی ہے اور یہ پاکستان میں کرتی رہیں، ان کا تو یہ حال رہا کہ یہ پاکستان کو سنبھال سنبھال کر اور بنا بنا کر خود ہی اپنے آمرانہ اقدامات سے بگاڑتی رہیں اور بگاڑ کو بڑھاتی رہیں۔آخری ڈیزاسٹر مشرف حکومت کا اچھی بھلی سنبھالی صورت اور جاری اصلاحات میں، بلوچستان میں نواب بگٹی سے تکرار اور لال مسجد ایشو کے بعد چیف جسٹس کی طاقتور ’’NO‘‘کی بھونڈی بلکہ خطرناک مس ہینڈلنگ کے بعد جس طرح قومی سیاسی منظر سے دور ہو جانیوالی روایتی سیاسی جماعتوں میں این آر او سے جان ڈالی، اورآمریت کے جیسے جیسے اقدامات وکلاء تحریک میں کئے اسکا منطقی انجام گزرے عشرے کی ’’بدترین جمہوریت ‘‘ میں دنیا نے دیکھا کہ ہماری منظر سے غائب ہو کر دوبارہ سیاہ و سفید کی مالک بن جانے والی روایتی پارلیمانی طاقتیں کتنی دیدہ دلیر اور اپنے ’’فن‘‘ میں یکتا ہیں کہ ایک اور دس سالہ ملٹری، سول جمہوریت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔جس طرح یحییٰ خان نے اپنے تین سالہ مارشل لاء کے دوران ہی ملک میں پہلے عام انتخابات کرا کے نتائج آتے ہی مغربی پاکستانی منتخب اپوزیشن کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے آگ کا کھیل کھیلا،اس میں پاکستان ٹوٹا بھی، وہ بھی اس ڈیزاسٹر کے ساتھ کہ بحران کے سیاسی حل کی اقوام متحدہ میں پیش کی گئی قرار داد (منجانب پولینڈ) کو مسترد ہی نہیں ٹکڑے کرکے ملک کو صرف ٹکڑے ہی نہیں کیابنگلہ دیش کا بننا، ہتھیار ڈال کر تادم لڑتی فوج کو جنگی قیدی بنا کر شرمناک ڈیزاسٹر قبول کیا۔ صنعتی زرعی انقلاب برپا کرنے، ایٹمی پروگرام کی کامیاب تکمیل اور افغانستان سے جارح سوویت افواج کو انخلاء میں مجبور کرنے ،افواج کو جدید اسلحے سے لیس کرنے میں اہم کردار کی عظیم کامیابیوں کے ساتھ جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کے اپنے اپنے ڈیزاسٹر رہے جن کے دوررس نتائج مہلک بھی ثابت ہوئے۔اس کے مقابل باقیماندہ پاکستان میں (پی پی کی) پہلی منتخب حکومت نےخود ہی متفقہ آئین بنا کر اپنے پورے دور اقتدار میں اس کے بڑے حصے کو معطل رکھنے، جمہوریت کو مکمل آمریت کی طرز پر چلانے، سندھ میں لسانی مسئلہ پیدا کرنے اور ملازمتوں کی کوٹہ پالیسی ،پھر اختتام اقتدار پر نئے پاکستان کے پہلے ہی انتخابات میں بدترین نوعیت کی ملک گیر دھاندلیوں سے ایسا ڈیزاسٹر پیدا کیا کہ تین روز کے وقفے سے ہونے والے صوبائی انتخابات کا متحدہ اپوزیشن نے تو مکمل بائیکاٹ کیا بھی خود ملک بھر کے پی پی کے اپوزیشن کے مظاہروں سے دبائو میں آئے اور شرمندہ حامی بھی گھروں سے ووٹ دینے نہ نکلے۔یہ اپنی حکومت کے آمرانہ اقدام (ملک گیر دھاندلیوں) کا شرمندگی اور دبائو سے پیدا ہونے والا ایسا حیران کن اجتماعی رویہ تھا جس کی کوئی پلاننگ ہوئی تھی نہ کوئی پارٹی لائن ہدایت اس کی وجہ بنی، سنسان پڑے پولنگ اسٹیشنز ہرکھلی آنکھ کو نظر آئے اور ملکی میڈیا سے زیادہ انٹرنیشنل میڈیا میں ہماری پہلی بدترین جمہوریت کا یہ ملک گیر مظاہرہ رپورٹ ہوا۔ شاخسانہ اس قدر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی ایک بے قابو چار ماہی قومی احتجاجی تحریک اور اس کیخلاف جعلی منتخب حکومت کی مسلسل مزاحمت، جس کا شاخسانہ ضیاء الحق کا دس سالہ مارشل لاء اور مکس حکومت پر مشتمل دس سالہ دور کی صورت میں نکلا۔آنے والے تین عشرے پھر دوکرپٹ اور ناکام سول حکومتوں کی دھما چوکڑی کے ادوار ہیں۔جس میں ہمارے بیرونی دشمن بھی ہمیں ترنوالا سمجھتے اور ہماری جملہ نوعیت کی سیاسی و پارلیمانی طاقتوں کے اجتماعی کردار و انداز کو اپنے لئے بہت سازگار حالات سمجھتے ہوئے ہم پر حملہ آور ہوتے رہے۔ سرحدیں محفوظ رہتے ہوئے بڑے چھوٹے شہر غیر محفوظ ہو گئے ۔،قارئین کرام! ہوا تو پورے ملک میں بہت کچھ بُرا لیکن اوپر بیان کی گئی ملک کی مختصر ترین تاریخ کے مہلک ترین دوررس نتیجے کے طور کراچی کی خصوصاً اور پورے سندھ کی اذیت ناک، فوری اور مکمل نوٹس ایبل حالت زار پاکستان کے عام باشعور شہری سے لیکر اقتدار کے ہر ایوان تک خواہ یہ پارلیمان ہے مختلف النوع پاور کو ریڈورز اور میڈیا کی مکمل توجہ کے شدت سے متقاضی ہیں۔(جاری ہے)

تازہ ترین