• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اکرم سہیل آزاد کشمیر حکومت کے سیکرٹری مذہبی امور ہیں۔ امور دینیہ اور تصوف پر گہری نظر رکھتے ہیں، شاعر ہیں، ماہر قانون ہیں۔ ہماری ان سے دیرینہ عقیدت ہے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے حکومت پر تنقید کرنا انہی کے حصے میں آیا ہے۔ وہ سیکرٹری تعلیم و برقیات بھی رہے، ایک دو اضلاع میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ سیکرٹری کے بعد ڈپٹی کمشنر کہنا خالصتاً عوامی انداز ہے۔ عام آدمی سے اگر کہا جائے کہ فلاں شخص تحصیل دار ہے تو سننے والا کوئی خاص تاثر نہیں لیتا لیکن اگر پٹواری کہا جائے تو وہ بہت متاثر ہوتا ہے۔
اکرم سہیل نے 21/اگست 2005ء کو مظفرآباد میں خاکروب کمیونٹی کی تین سالہ معصوم بچّی کے فوت ہونے پر ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ”کاش یہ شہر کربلا ہوتا“ اس نظم میں انہوں نے انسانی بے حسی پر احتجاج کیا تھا۔ عیسائی برادری کی بچّی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کی اجازت نہ ملنے پر وہ پکار اٹھے تھے۔ وہ نظم ایک سو دو مصرعوں پر مشتمل ہے۔ 8/اکتوبر2005ء کے ہولناک زلزلے پر میں ان دنوں مقالہ لکھ رہا تھا کہ اکرم سہیل سے ملاقات ہوئی۔ وہ ان دنوں اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ میرے مقالے کا عنوان تھا ”زلزلے کیوں آتے ہیں؟“ اکرم سہیل نے اپنی نظم کی وجہ تخلیق سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عیسائی برادری کی تین سالہ بچّی مظفرآباد، دریائے نیلم کے کنارے شوکت لائنز میں درج بالا تاریخ کو فوت ہو گئی تھی جسے وہاں کے مسلمانوں، حاجیوں، نمازیوں اور تہجد گزاروں نے مقامی قبرستان میں اس لئے دفنانے کی اجازت نہیں دی تھی کہ غیرمسلم کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی شرعاً ممانعت ہے۔ مظفرآباد میں تین دن احتجاج ہوتا رہا، عیسائی برادری بچّی کا لاشہ لئے سڑکوں پر بیٹھے رہے۔ وزیراعظم برطانیہ کے دورے پر تھے۔ شہر میں اقلیتوں کا قبرستان نہ ہونے کے باعث معاملہ سنگین ہو گیا۔ آخرکار بچّی کے والدین نے مقامی انتظامیہ سے درخواست کی کہ انہیں سرکاری طور پر ایک گاڑی فراہم کی جائے تاکہ وہ سیالکوٹ جا کر بچّی کو دفنا آئیں۔ یوں پھر لڑکی کے والدین، کنبے کے دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ مظفرآباد بلدیہ کی ”پک اپ“ کے ذریعے بچّی کو دفنا تو آئے مگر مسلسل سفر کی وجہ سے واپسی پر مظفرآباد کے موضع ”امبور“ کے نزدیک ڈرائیور کی غنودگی کے باعث گاڑی دریائے جہلم میں جا گری اور وہ سارے کا سارا کنبہ دریا برد ہو گیا۔ اس واقعے سے کافی دنوں تک مظفرآباد کی علاقائی فضا میں کشیدگی، ملال اور ماحول میں غم و غصّہ پایا جاتا رہا۔
وزیراعظم نے برطانیہ سے واپسی پر مظفرآباد کے علاقے ”ماکڑی“ میں عیسائی اقلیت کے لئے پانچ کنال زمین اور چار دیواری کی تعمیر کیلئے چار لاکھ روپے بھی دیئے تو تھے مگر بات اب انسانوں سے نکل کر وہاں تک پہنچ چکی تھی جو سب کا رب ہے۔ ٹھیک 48 دنوں بعد زمین نے وہ کروٹ لی کہ سارا مظفرآباد مٹّی کا ڈھیر اور ہولناک غاروں کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ 21/اگست کو ایک بچّی کو دفنانے کی اجازت نہ دینے والوں کے اپنے ہزاروں بچّے بے بسی، بے چارگی کے عالم میں 8/اکتوبر 2005ء کے زلزلے کی نذر ہو گئے۔ سیکڑوں، ہزاروں کو کفن نصیب نہ ہوا، بہت سوں کو قبروں نے جگہ نہ دی، سیکڑوں کو پانی بہا کے لے گیا، دور دور تک زندگی کی سانسیں تھم چکی تھیں، ایسے میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو کہنا پڑ گیا تھا کہ ”میں قبرستان کا وزیراعظم ہوں“۔ دراصل زندگی کے بعض چھوٹے چھوٹے واقعات میں احتیاط برتنے سے انسان بڑے بڑے سانحات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ جس نے ایک انسانی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا اور جنہوں نے ایک بچّی نہ دفنانے دی ان کا پورا خطہ قبرستان بن گیا۔
اکرم سہیل کی خواہش پر میں نے ان کی وہ نظم اپنے مقالے میں شامل کرنے سے پہلے پوچھا کہ سرکاری ملازم ہو؟ اس نے کہا ”انسان بھی تو ہوں“ میں نے کہا کشمیر کے ایک ذمہ دار افسر ہو، کچھ عرصہ وکالت بھی کی، قانون قاعدے سے بھی آگاہ ہو، ڈپٹی کمشنر سے سیکرٹری تک سارے انتظامی امور سے باخبر ہو، کہیں نوکری نہ چلی جائے؟ وہ بولا ”ہم جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں، آپ نوکری کی بات کر رہے ہو“۔ میں نے کہا حکومت ناراض ہو جائے گی۔ اس نے کہا ”اللہ تو راضی ہو گا“ اصلاح معاشرہ اور عبرت کیلئے میں نے وہ نظم اپنے مقالے میں شامل تو کر لی تھی مگر میں سوچتا رہا کہ ایک بچّی کیلئے اتنی بڑی قیامت لیکن جوں جوں میری تحقیق کا دائرہ بڑھتا گیا تو پتہ چلا کہ کچھ اور ناپسندیدہ امور بھی تھے جن کا گرفت میں لانا ضروری ہو گیا تھا۔ مانسہرہ اور گڑھی حبیب اللہ میں سود کا کاروبار عروج پر تھا، باغ اور مظفرآباد میں اکثر نوجوان شادی کر کے خلیجی ممالک میں کمائیاں کرنے چلے جاتے تھے اور گھروں میں پڑی نوجوان دلہنیں جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھایا کرتیں تو ان کی سرد آہوں سے چوتھے آسمان پر شعلے برساتا سورج بھی سرد پڑ جاتا تھا۔ بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ زلزلے خاص موسموں میں آتے ہیں لیکن سائنس موسموں اور زلزلوں میں کوئی تعلق دریافت نہ کر سکی۔ ارسطو کا خیال ہے کہ زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ سائنسدان اس امر پر متفق ہیں کہ زمین کی بالائی پرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے، جب زمین کے اندر کرے میں موجود پگھلے ہوئے مادے جنہیں علم ارضیات میں میگما Magma کہتے ہیں ان میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں۔ ان ارضی پلیٹوں کی حالت میں تبدیلی سے سطح میں دراڑیں یا فالٹ Fault نمایاں ہوتے ہیں جن میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے زلزلہ آتا ہے۔ دنیا میں تین فالٹ لائنز ہیں۔ پہلی پاکستان، بھارت، شمالی علاقہ جات، ہمالیہ کے پہاڑوں، افغانستان، ایران، ترکی سے گزرتی ہوئے یوگو سلاویہ سے فرانس تک جاتی ہے۔ دوسری فالٹ لائن شمالی امریکہ، مغربی ریاست الاسکا، میکسیکو، لاطینی امریکہ کے ممالک کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو سے چلّی تک جبکہ تیسری فالٹ لائن جاپان سے تائیوان، فلپائن، برونائی، ملائیشیا اور انڈونیشیا تک جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا ان تین فالٹ لائنز کے حصار میں ہے۔ سائنس کتنی بھی ترقی کر لے زلزلے کی آمد کی پیش گوئی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ دراصل یہ فالٹ لائنز خدائی ”وارننگز“ ہیں۔ زلزلے، طوفان، طاعون، دیگر موذی امراض یہ سب انسان کیلئے عبرت کا سامان ہیں۔ آج کا زلزلہ اور گزشتہ منگل کو پاکستان اور ایران میں آنے والا زلزلہ جس کی شدّت ریکٹر اسکیل پر بہت زیادہ تھی اور نقصان بہت ہی کم، ایران تو بالکل محفوظ رہا، کراچی بھی حفاظت میں رہا البتہ بلوچستان میں چالیس کے قریب اموات کی خبر ہے۔ عقل والوں کے لئے اتنا جھٹکا کافی ہے۔ زلزلہ آ جانے کے بعد ذمہ داریوں کا احساس کرنا اور قومی یکجہتی کے اظہار میں امداد کیلئے دوڑ پڑنے سے بہتر ہے یہ نوبت آنے سے پہلے ہی ان پہلوؤں پر غور کر لیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ زمینی پلیٹوں کی کیا جرأت کہ اپنی جگہ سے سرک جائیں، فالٹ لائنز کون ہوتی ہیں؟ دنیا کو برباد کرنے والی میگما خود سے کیسے پگھل سکتا ہے۔ ان زاویوں سے غور کرنے والوں پر کھلتا ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ جب اس راز سے آگاہی ہو جائے تو خود بہ خود پتہ چل جاتا ہے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟
تازہ ترین