• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کا میلہ سج چکا ہے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ رائے دہندگان کے سیاسی اور اجتماعی شعور کے امتحان کا بھی وقت آن پہنچا ہے۔ یہ انتخابات دو اعتبار سے پرچی کے ذریعے سیاسی تبدیلی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کی اُلجھی ہوئی اور قدرے ناہموار سیاسی تاریخ میں پہلی بار منتخب حکومتوں نے اپنی میعاد پوری کرنے کے بعد جمہوری طریقے پر رائے عامہ کے ذریعے اقتدار کی منتقلی کی روایت قائم کی ہے اور دوسرے یہ کہ پہلی بار انتخابات کا انعقاد انتہائی آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے زیرِ نگرانی ہو رہا ہے جس کی پشت پر ایک طاقتور اور بڑی حد تک آزاد عدلیہ کھڑی ہے اور یوں دہری نگرانی کے اس دستوری نظام کے تحت، اس امر کی بجا طور پر توقع کی جا رہی ہے کہ 11 مئی کو منعقد ہونے والے قومی و صوبائی انتخابات میں پرچی کے تقدس اور جیتنے والی جماعتوں کو پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت مستحکم ہو جائے گی اور ہارنے والے کسی بلاجواز عذر کو بنیاد بنا کر دھاندلی کا شور مچانے کے بجائے کھلے دل سے اپنی ہار اور دوسرے فریق کی جیت کو قبول کر کے ایک نئے جمہوری سفر کا آغاز کریں گے۔
چونکہ پاکستان میں جمہوری اور انتخابی عمل بار بار تعطل کا شکار ہوتا رہا ہے اور بالادست قوتوں کی طالع آزمائی کے باعث وہ ریاستی ادارے اور شراکت دار جو جمہوریت کیلئے آکسیجن کا کام دیتے ہیں ، ماضی میں کمزوری اور مصلحت اندیشی کا شکار ہوتے رہے ہیں لیکن اب ایک یکسر تبدیل ہوتے ہوئے منظر نامے میں جہاں الیکشن کمیشن کے ”اصلاحی“ اور محاسبے پر مبنی اقدامات میں بے یقینی اور بسااوقات بے تدبیری کے مظاہر دیکھنے کو ملے وہاں خود انتخابات کے وقت مقررہ پر اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی بابت بھی چہ میگوئیاں ہنوز جاری ہیں حالانکہ مجوزہ انتخابات کے انعقاد میں صرف تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انتخابی معرکوں کی گرما گرمی ، جوڑ توڑ کی فراوانی اور عوامی دلچسپی کے بھرپور مظاہرے کی فضا ابھی تک زور نہیں پکڑ سکی۔
اس ”ٹھنڈک “ کے ذمہ دار عوامل میں الیکشن کمیشن کے بہت سے ضابطوں اور غیر روایتی احتسابی اقدامات کے ساتھ خود سیاسی جماعتوں کی یکسوئی اور موقع پرستوں کو بھی خاصا دخل ہے مثلاً کئی سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور بہت تاخیر سے پیش کئے اور ایک بڑی اکثریت نے تو ابھی تک اس کو ضروری ہی نہیں سمجھا۔ پھر یہ کہ آئے دن ٹکٹوں کی تبدیلی اور حمایت یافتہ امیدواروں کی فہرست میں ردوبدل ابھی تک جاری ہے جبکہ کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران بے شمار ریٹرننگ افسروں کی بداخلاقی اور غیر سنجیدگی تو اب لطیفوں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
بہرحال پاکستانی قوم علامہ اقبال کی فکر کی عکاس بنتی جا رہی ہے جس صداقت، عدالت اور شجاعت کو انہوں نے قیادت کے لئے لازم و ملزوم قرار دیا تھا، سیاسی قائدین بھی بتدریج اس جانب بڑھ رہے ہیں۔ فی الواقعہ دنیا کے تمام مذاہب اور اخلاقی ضابطے عدل کو ایک ایسی اعلیٰ قدر قرار دیتے ہیں جو معاشرے کو ترقی اور بھلائی سے ہمکنار کرتی ہے۔ شجاعت بھی نیکی ہے کیونکہ یہ ظالم کا راستہ روکنے اور مظلوم کا ساتھ دینے کی استطاعت کا نام ہے۔ اسی طرح صادق اور امین بھی عدل سے باہم مربوط ہیں کیونکہ شروع میں عدل یا انصاف کی اصطلاح عام طور پر راست بازی اور نیکو کاری کے معنوں میں استعمال ہوتی تھی اور انصاف راست بازی اور نیکی کے علاوہ معاشرے کے متفقہ طور پر تشکیل کردہ ضابطہٴ اخلاق کے مکمل اتباع کا نام تھا۔ اسلام انسان سے محبت کی نہیں عدل کی تلقین کرتا ہے کیونکہ عدل ہی معاشرے کی بقا اور سلامتی کا ضامن ہے اور عدل اپنے وسیع تر مفہوم میں محض ایک اخلاقی قدر ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظام ہے جو اوپر سے نیچے تک پوری سوسائٹی کی تطہیر کرتا ہے۔ انجیل کے نظریہٴ عدل کے مطابق کسی بھی معاشرے کو منصفانہ طرز میں ڈھلنے کے لئے ایک طاقتور ادارے کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف سختی سے قوانین کی پیروی پر لوگوں کو مائل کرے بلکہ ان اصولوں کو نیکی کی طرح ان کی سرشت میں ایسے شامل کرے کہ وہ مجبوری سے نہیں بلکہ خوشی سے ان کا اتباع کریں۔
ایک وقت تھا جب اس ملک کے سرکردہ افراد اور ادارے ہر طالع آزما کے سامنے جھک کر نہ صرف ہمنوائی کا دم بھرتے تھے بلکہ بعض اوقات تو یہ ہمنوائی اندھی اطاعت کا روپ دھار لیتی تھی مگر آج طاقت کے سامنے جھکنے کے بجائے، اصولوں کی سربلندی کا آغاز ہو چکا ہے۔ سیاسی قائدین، عدلیہ ، میڈیا اور سول سوسائٹی کی جدوجہد کے نتیجے میں بیشتر نقشِ کہن مٹتے جا رہے ہیں اور جمہوریت رفتہ رفتہ سلطانیٴ جمہور کے فیوض سے سرفراز ہو رہی ہے۔ سیاسی قائدین کے علاوہ ایک مقتدر عہدے پر فائز رہنے والی شخصیت کو قانون کے کٹہرے میں لا کر مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں ہماری عدلیہ اور عوامی شعور نے نیک نامی کی سند حاصل کی ہے اور اس عمل میں مداخلت نہ کرنے کے باعث ایک مقتدر ادارے کی اخلاقی توقیر اور عزت و احترام میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر کچھ سوال، فیصلے اور امتیازی سلوک آج بھی ہماری تاریخ پر دھبے کی طرح نظر آتے ہیں۔
آج بھی ثابت نہیں ہو سکا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جس جرم میں پھانسی دی گئی وہ اس کا مرتکب ہوئے بھی تھے یا نہیں ۔ اسی طرح ہائی جیکنگ کے عذر کو جرم بنا کر نواز شریف کو جو سزا دی گئی وہ بھی کسی قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی پر مبنی نہیں تھی یعنی دو منتخب وزرائے اعظم کو ایسے جرم کی پاداش میں پابندِ سلاسل کرکے پوری قوم کی عزتِ نفس کو مجروح کیا گیا جو ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا مگر ایک آمر جس کے جرائم دن کی روشنی کی طرح عیاں ہیں، قدرے مختلف سلوک کا مستحق ٹھہرا ہے۔ نہ جانے کس اخلاقی جواز کے ساتھ اس کی حفاظت اور پشت پناہی کی جا رہی ہے جو کئی جانوں اور قوانین کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ دیگر جرائم کے علاوہ اسی کے حکم پر پرویز رشید جیسے بے داغ اور دانشور سیاست دان کو بغیر کوئی جرم عائد کئے اٹھا کر غائب کر دیا گیا کہ مہینوں اس کی خبر تک نہیں تھی یہ تو خیر ایک چھوٹی سی مثال تھی ورنہ اس خود ساختہ ”سب سے پہلے پاکستان“ نامی سلوگن کے پرچار نے تو مقننہ ، عدلیہ اور سول سوسائٹی کی پامالی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی لیکن ہماری بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ دو مرتبہ آئین شکنی کا مرتکب ہونے کے باوجود اُسے گارڈ آف آنر کا مستحق ٹھہرایا گیا اور پھر سیکورٹی کے نام پر ابھی تک سربراہ مملکت کا سا پروٹوکول فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ آخر پرویز رشید اور پرویز مشرف کے ساتھ مختلف ”حسن سلوک“ کی یہ روایت کب ٹوٹے گی اور مملکت کے تمام شہریوں کے لئے یکساں عدل کا سورج کب طلوع ہو گا؟
تازہ ترین