• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشف اور روحانیت کی دنیا کے بےتاج بادشاہ جناب سید سرفراز شاہ صاحب کے پاس بیٹھا تھا، ملاقات میں کئی اور اہم لوگ بھی تھے، میرے دل میں جب کورونا کی وجہ سے ایک کروڑ نئی بےروزگاری کا خیال آیا تو کشف کے ذریعے جانتے ہوئے مجھے شاہ صاحب نے فرمایا ’’ضیاء صاحب، یہ دنیا پانی ہے اور پانی کی لہروں میں مگرمچھ اور مچھلی کی کبھی دوستی نہیں ہوا کرتی، مگرمچھ کا جب بس چلے گا مچھلی کوکھا جائے گا‘‘۔ حضرت انسان کی ایک جانب بلندیاں ہیں تو دوسری جانب پستیاں، آج اچھی نوکری اور بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا، بڑے لوگوں کیساتھ تعلق پانی کی’’لہر‘‘ کی مانند ہوتے ہیں، اس کو مستقل نہ سمجھیں، ہاں ان کے ساتھ جڑ کر خود بڑا بننے کی کوشش ضرور کریں لیکن اچھی نوکری اور بڑے لوگوں سے اچھا تعلق مستقل نہیں ہوا کرتا، یہ دونوں بےوفا ہیں۔ ہم تنقید وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں برداشت زیادہ ہے اور وہ ادارہ صرف پاکستان پولیس ہے۔ مثلاً ہمارے ملک کا کوئی تھانہ بتادیں جہاں رشوت نہ چلتی ہو، آئی جی رشوت نہیں لیتا تو ایڈیشنل آئی جی لیتا ہوگا، ڈی آئی جی نہیں لیتا ہوگا تو ایس ایس پی رشوت میں ملوث پایا جائے گا۔ ایس پی نہیں تو ڈی ایس پی معاملات کرنے والا ہوگا، ڈی ایس پی بچا ہوگا تو ایس ایچ او ملوث پایا جائے گا۔ اے ایس آئی محفوظ ہوگا تو آپ کانسٹیبل کو پیسے دیے بغیر تھانہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ کسی بھی محکمہ میں چلے جائیں رشوت کے بغیر آپ کا کام اول تو ہوگا نہیں اگر ہوا تو تاخیر سے ہوگا بلکہ اب تو مافیا نے فائلوں کے ساتھ رشوت کو ’’اسپیڈ منی‘‘ کا نام دے دیا ہے۔ اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میں جب عدالتوں کے باہر 100روپے والا اسٹامپ پیپر 200میں ملے تو انصاف کہاں سے ملے گا۔ہمارے سیاسی، مذہبی، سماجی، تجارتی رہنمائوں کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں کو کیسے ذاتی، اندورنی مافیا نے گیر رکھا ہے حالانکہ یہ لوگ بھی کسی نہ کسی سطح پر ہر روز کسی مافیا کو مخاطب کرتے ہیں لیکن اپنے ارد گرد مافیا پہ ان کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ ان شخصیات کی سب سے بڑی کمزوری یہی لوگ تو ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جھوٹ سننے کے عادی، غیبت و بےمقصدخوشامد کے رسیا ہو چکے ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک خود پسندی یعنی ذات کو اپنی محبت میں مگن کرنا بھی ایک بیماری ہے، یہ بیماری جب باغی ہوکر دوسروں سے جا ملتی ہے تو پھر خوشامد کی صورت میں واپس لوٹتی ہے۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ

فن کی بقا تعریف کے دم سے

تعریف نہ ہو تو فن افسردہ ہو جائے

تعریف خوشامد نہیں لیکن جو خوبی نہ ہو اس کو خوبی بنا کر پیش کرنا خوشامد ہے۔ خود پسندی کو سب سے زیادہ اسلام نے نا پسند فرمایا لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ اصلاحِ معاشرہ دیکھنے کے لئے عام و بےمعنی سا موضوع لگتا ہے، ہر فرد نفس پرستی میں مبتلا ہے اور اپنی حدود سے باہر نکلنا عام سا ہو گیا ہے۔ الفحشاء، یہ لفظ فحش سے ہے، الفواحش اس کی جمع معنی حدود فراموشی ہیں۔ فرائڈ بڑا ماہر نفسیات ہے، اس کے بعض نظریات سے اختلاف ممکن ہے لیکن کوئی بھی ماہر نفسیات اس کو پڑھے بغیر بات نہیں کر سکتا، وہ دو اصطلاحات کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک جانب IDDاورLIBDOہے یعنی حیوانی جبلتیں اور حیوانی تقاضےAnimal Instinct اوردوسری طرف EGO اور SUPER EGOیعنی انا اور انائے کبیر بھی موجود ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم انا اور انائے کبیر کے خاتمے کے لئے ایسے لوگوں کو اپنے قریب کریں جن کو قریب کرکے ہم جہاں اپنے نفس کو زیر اور دوستوں کے حلقہ میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے گرد لوگوں کا رش لگا رہے، وہ آپ سے فیض یاب ہوتے رہیں تو پھر ہمیں اپنے نفس کو درست کرنے کے لئے کچھ سزائیں خود تجویز کرنی چاہئیں مثلاً پہلا کام تو یہ کریں کہ شیشہ نہ سہی تو اپنے موبائل کیمرہ کے سامنے اپنے چہرہ پر لکھے ہوئے منفی سوالات کو نوٹ کریں اور جو خامیاں آپ میں منفی ہوں ان کو ترتیب سے ایسے شخص یا کسی چیز کا نام دیں جو سب سے زیادہ آپ کو ناپسند ہو کیونکہ جب بدخصلت اور گھٹیا آدمی آپ کو یاد آئے گا تو آپ اپنی خامی کو بھی دور کر سکتے ہیں۔ یوں روزانہ نہیں تو ہفتہ میں ایک خامی اپنی شخصیت سے دور کرتے جائیں اور اسی طرح جو مثبت پہلو آپ کی شخصیت میں موجود ہیں ان میں بھی ترتیب سے بتدریج اضافہ کرتے جائیں۔ اس پریکٹس سے آپ بہت جلد دیکھیں گے کہ آپ کی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اللہ نے ہر انسان کے اندر منفی اور مثبت دونوں چیزیں رکھی ہیں لیکن اب انسان کا کام ہے کہ وہ کس کو زیادہ فروغ دیتا ہے۔ اپنے آپ کو حقیر سمجھنا بنیادی طور پر اللہ کی ناشکری ہے، اپنے اندر چھپی ہوئی خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی دوسرے افراد سے قیمت وصول کریں کیونکہ فی زمانہ اگر آپ خود اپنے اندر چھپی ہوئی خوبیوں کی قیمت وصول کرنے کا ہنر نہیں رکھتے تو پھر دوسروں سے قیمت وصول کرنے کا خواب دل سے نکال باہر پھینکیں کیونکہ اس معاشرے میں اگر آپ کو دوسروں سے اپنے فن کی قیمت لینی نہیں آتی تو پھر کوئی آپ کو خود کچھ نہیں دے گا۔ غلط فہمی میں نہ خود رہیں اور نہ دوسروں کے ہاتھوں میں اپنے آپ کو سستا بیچ کر سمجھدار لوگوں کا نقصان کریں، مافیا کو سمجھیں اور مافیا کے پھندے سے بچیں۔

تازہ ترین