کالم کا عنوان پڑھ کے میں خود بھی چونک گیا۔ دھیان گیا برصغیر میں جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ ابن صفی کی طرف جس نے لازوال کردار تخلیق کئے جن میں سے ایک کردار عمران کا تھا۔ عمران جیسا دکھائی دیتا، ویسا تھا نہیں اور حقیقت میں جیسا تھا، ویسا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ابن صفی کے مجھ جیسے لاکھوں بلکہ بھارت کو بھی شامل کر لیں تو بلاشبہ کروڑوں قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں لیکن زیرنظر کالم میں جس عمران کے اغوا کا ذکر ہے وہ ابن صفی کا نہیں، ہماری حالیہ سیاست کا جیتا جاگتا کردار عمران خان ہے جس کے بارے میں، میں نے لکھا تھا کہ یہ ایک بلاک بسٹر فلم ”مولا جٹ“ کے ہیرو مولا جٹ جیسا ہے جو خود اپنے منہ سے کہتا ہے … ”مولے نوں مولا ناں مارے تے مولا نئیں مردا۔“ عمران کے ٹیک آف پر میں نے اسی کردار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اب … ”عمران کو عمران نہ مارے تو عمران نہیں مرتا“ سمجھ نہیں آتی کہ ہوا کیا؟
عام کھیل اور سیاست کے کھیل میں بہت فرق ہے؟
کسی کی نظر لگ گئی؟
گیارہ کھلاڑیوں اور کروڑوں ووٹرز کی ہینڈلنگ کے لئے مختلف ٹیلنٹ اور مزاج درکار ہے؟ یا پھر ہمارا عمران نیازی اپنے قبیلے کے فخر اور فکری سردار منیر نیازی کی اس نظم کے سحر میں مبتلا ہو چکا کہ۔
کُج اِنج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وِچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج مینوں مرن دا شوق وی سی
یہ لکھتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ الیکشن میں جو کلین سوئپ سر پر کھڑی تھی، اس نے منہ پھیر لیا بلکہ سچ یہ ہے کہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑی ہوئی اور یہ بہت بڑا نقصان ہے، پاکستان کا نقصان کیونکہ جو سوئپ کر سکتا تھا وہ کر نہ سکے گا جس کے نتیجے میں ایسی بدذائقہ بلکہ زہریلی کھچڑی تیار ہوگی … ایسے کھڑاک ہوں گے، ایسی تاخ تڑاک ہوگی کہ الامان الحفیظ۔ پاکستان کے عوام کو الیکشن کے نام سے نفرت ہو جائے گی۔
جسے اعتبار نہ آئے وہ انتظار فرمائے کہ اب چند دنوں کی ہی تو بات ہے کہ نہ گھوڑا دور نہ میدان۔ سوئپ ہوتی نہ ہوتی، موجودہ ملکی حالات میں کسی ایک کے پاس واضح اکثریت کا ہونا ضروری تھا اور یہ ضرورت عمران پوری کر سکتا تھا لیکن ایسا ہوتا بھی دکھائی نہیں دے رہا، سوئپ تو دور کی بات۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تین موڑ بہت اہم ہیں۔ تیسرے کی فوری نہیں چند سال بعد سمجھ آئے گی کہ کون سا کارخیر ہوتے ہوتے رہ گیا لیکن فی الحال یہ تین موڑ ملاحظہ فرمائیں۔
اوّل : مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا۔
دوم : بھٹو کی پھانسی۔
سوم : عمران کا اغوا۔
سیانے کہتے تھے کہ آملوں کا کھانا اور تجربہ کاروں کی بات سننا ہے تو بہت فائدہ مند لیکن اس فائدے کا علم فوری طور پر نہیں، لانگ ٹرم میں ہوتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران کو اغوا کرنے والے ہیں کون؟ تو یہ وہ لوگ ہیں جنہیں روز اوّل سے تربیت ہی فتنہ و فساد کی ملتی ہے۔ ذاتی و گروہی مفاد کے لئے یا وقتی عناد کے لئے یہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مکمل ہولڈ اور خود کو مسلط کرنے کے لئے یہ بڑی سے بڑی سازش اور چھوٹی سے چھوٹی حرکت با آسانی کر سکتے ہیں ”شکل مومناں کرتوت کافراں“ کے یہ شاہکار ہر شے میں سازش دیکھتے ہیں کیونکہ خود سازشی ہوتے ہیں۔ ان کے اندر کی بات کبھی زبان پر نہیں آتی، جو زبان پر ہو، ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ ”بغل میں چھری منہ میں رام رام“ ان کا سیاسی نظریہ ہوتا ہے۔ کیتھولک چرچ کے Jesuit سمجھ لیں۔
اس دردناک کہانی کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ”مغوی“ عمران بہت خوش ہے اور اس غلط فہمی میں بھی مبتلا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اپنی مرضی سے کر رہا ہے اور اس کے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی اپروول سے ہو رہا ہے جب کہ خلاصہ صرف اتنا ہے کہ۔
”میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے“ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مڈل پاسوں، دھوکہ دہی میں نیب کو مطلوب ملزموں یا ان کو ٹکٹ مل جاتے ہیں جن کے وزن سے زیادہ وزن کی ایف آئی آرز ان کے خلاف ریکارڈ پر موجود ہیں اور ریٹرننگ افسر کو بیان حلفی دیتے ہوئے ڈھٹائی سے لکھتے ہیں کہ ان کے خلاف کبھی کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ ڈس کوالیفکیشن کے لئے یہی غلط بیانی بہت کافی ہے اور (ن) لیگ والے جب چاہیں گے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیں گے۔عمران اسمارٹ ہے اور آج نہیں تو کل ساری واردات پوری تفصیل کے ساتھ سمجھ جائے گا لیکن تب تک چڑیاں کھیت چگ چکی ہوں گی، خنزیر گنّوں کا کھیت پامال کر چکے ہوں گے، سانپ نکل چکا اور لکیریں باقی رہ گئی ہوں گی کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا تھپڑ اپنے تھوبڑے پر ہی جچتا ہے۔اس صورتحال میں اصل مسئلہ جینوئن ووٹر کا ہے جو نہ کسی لیڈر کو دیوتا سمجھتا ہے نہ کسی سیاسی پارٹی کو ایمان کا درجہ دیتا ہے تو اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ نہ پارٹی کی پروا کرے نہ لیڈر کی شکل دیکھے… اپنے اپنے حلقہ انتخاب کو مدنظر رکھتے ہوئے دیانتداری سے امیدواروں کا موازنہ کریں اور جسے بہتر سمجھیں اسے ووٹ دیں، اگر سب لوگ ہی سب اسٹینڈرڈ ہوں گے تو گھر بیٹھیں۔اغوا کا کیس پورا کالم کھا گیا لیکن مور اوور (More Over) کے طور پر کچھ (ن) لیگ کے بارے میں کہ پہلا انتخابی نعرہ تھا … ”ہم نے بدلا ہے پنجاب ہم بدلیں گے پاکستان“ جب اس مضحکہ خیز نعرے کی پیروڈیز بننے لگیں تو یہ اس سے بھی بے معنی نعرہ لے آئے۔شیر کا نشان روشن پاکستانکیا کترینہ کیف، کرینہ کپور اور بپاشا باسو ٹائپ شیر ہے جس کے انگ انگ میں بجلی بھری ہے اور وہ جب دھاڑے گا تو کرنٹ چھوڑے گا۔جنہیں نعرہ بنانا نہیں آتا، ملک بنانے چلے ہیں!