• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اسلامی جمہوریہ پاکستان (بمطابق متفقہ آئین) کے وفاق اور چاروں صوبوں میں مجموعی گورننس کا مسلسل جاری بحران جتنا پیچیدہ ہو چکا ہے، یہ صورت اس امر کی شدت سے متقاضی ہے کہ اسے فوری پوری سنجیدگی و دانش اور ممکنہ حد تک اتفاق و اتحاد سے ایڈریس کیا جائے۔ اس کا ہوش ہمیں کراچی میں طوفانی بارشوں سے پبلک لائف کی روزمرہ کی لازمی شہری ضرورتوں کی فراہمی کے پہلے سے بیمار نظام کے بھی تلپٹ ہونے نے دِلایا ہے۔ ملک کے شہرِ عظیم پر اس قدرتی آفت سے 2کروڑ سے زائد پاکستانیوں پر جو گزر گئی اور جس اذیت ناک صورتحال سے وہ اب تک دوچار ہیں، یہ کراچی کی معمول کی جیتی جاگتی شہری زندگی میں بہت بڑا انسانی بحران ہے، جس نے ساری قومی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی ہے، یہی نہیں جو کچھ سندھ کے دوسرے شہروں اور قصبات خصوصاً دیہات میں ہو گیا، وہ آفت زدہ کراچی سے کم نہیں لیکن ملک کا یہ گنجان آباد، کمال صابر شاکر، بےبس اور مفلوک و مقہور علاقہ ہے جسے اتنا سماجی و اقتصادی پسماندہ رکھا گیا کہ انہیں اب محرومیوں اور مظالم کے ساتھ خاموشی سے سسکتے بلکتے ہی رہنا آگیا ہے، اِن میں تبدیلی کی حس منظم سیاسی عزم سے ختم کر دی گئی ہے۔

عمرانیات کے ماہر سے ماہر محقق کے لئے تحقیق سے بھی یہ ثابت کرنا کوئی آسان نہیں کہ گزشتہ تین پُرآشوب عشروں میں سندھ کی شہری آبادی زیادہ بے کس و بے بس اور محروم رہی یا اندرون سندھ کےدیہات کی۔ واضح رہے یہ پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں، میڈیا ریسرچ کے نتیجہ میں ماس کمیونیکیشن کا تسلیم شدہ نالج ہے کہ میڈیا بلند درجے پر ’’اربن اورینٹڈ‘‘ ہوتا ہے، اور دیہات ترقی پذیر معاشروں میں آبادی کے لحاظ سے حاوی ہونے کے باوجود گورننس اور اپنی ہارڈ شپ کے حوالے سے میڈیا کی نظروں سے بھی اوجھل رہتے یا برائے نام رپورٹ ہوتے ہیں، (جبکہ میڈیا خود معاشرے کا آئینہ ہونے کا بھی دعویدار ہوتا ہے) حالانکہ انسانی زندگی کی محروم کیفیت یہاں شہروں کے مقابل زیادہ شدید ہوتی ہے۔ یاد نہیں کہ چند سال قبل سندھ کے اندرونی علاقوں خصوصاً تھر میں کم غذائیت کے شکار نومولود بچے جب مٹھی کےاسپتال میں آ کر دم توڑنے لگے تو میڈیا میں تھر کے انسانی بحران کی رپورٹنگ شروع ہوئی لیکن میڈیا کا فالو اپ کمزور ہونے کےباعث ایسے ہی مقامی بحران نے دو اڑھائی سال بعد پھر سر اٹھایا ، اس حوالے سے نیم جاں گورننس بروقت اور مکمل رپورٹ ہوئی نہ مفلوک الحال گھرانوں کی حالت زار۔ تھر تو ابھی سوشل میڈیا کی رپورٹنگ میں بھی نہیں آ رہا۔ دوسرے صوبوں میں بھی اس حوالےسےصورتحال کوئی تسلی بخش نہیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے دوسرے بڑے چھوٹے شہر خصوصاً دیہات گورننس کے زیادہ بڑے بحران اور عوام کی حالت زار کے حوالوں سے کہیں زیادہ متعلقہ حکام اور میڈیا کی توجہ کے مستحق ہیں۔کراچی چونکہ سندھ کی گورننس کا مرکز اور مملکت کا اقتصادی صدر مقام اور ملک کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں مکمل ہنگامی نوعیت کی موجودہ بد تر صورت حال نے پوری قوم کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے، یہ ایک بڑا نیک شگون ہے، لہٰذا اسی صورت سے جذبہ اور حوصلہ پاکر ہمیں ’’کراچی لیڈنگ ٹو رورل سندھ‘‘ پورے صوبے کی مکمل بگڑی کو ’’بنتی سنبھلتی صورتحال‘‘میں تبدیل کرنے کی مخلص و مشترک کوششہی قابلِ عمل، بحالی و ترقیاتی ماڈل کی تیاری ہی نتیجہ خیز ہوگیلیکن اِس میں دیہات کے حقیقی نمائندوں کو ساتھ ملانا اور اُن سے مسلسل رابطے کا نظام بنانا اولین شرط ہے۔

کراچی پر وفاقی و سندھ حکومت، اپوزیشن میڈیا اور ملک بھر کے عوام کا مشترکہ احساس یقیناً صورتحال کے مطابق حاصل ہونے والا ایک بڑا اثاثہ ہے، اس کا بہتر استعمال نہ ہوا تو یہ ہی مزید مایوسی میں تبدیل ہو کر (خاکم بدہن)ڈیزاسٹر نہ بن جائے۔ ناچیز کا نوٹس یہ ہے کہ شدید مشکلات میں گھرے کراچی پر ’’قوم کی سنجیدہ توجہ اور مسئلے کے فوری حل کے احساس‘‘ کو روایتی سیاسی ابلاغ خصوصاً بلیم گیم ڈسٹرب کر رہی ہے۔ ’’آئین نو‘‘ میں پہلے ہی واضح کیا جا چکا ہے کہ کراچی کی موجودہ سنگین صورت میں مسئلے کا روایتی سیاسی انتظامی حل ممکن نہیں،شہر کی جاندار سول سوسائٹی کے اشتراک سے غیرسیاسی حل پر زیادہ انحصار کیا جائے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ منتخب نمائندگان کو ایک طرف کردیا جائے، ذہن نشین رہے کہSocio-political Developmentکی سائنس تو ترقیاتی عمل کو بغیر رکاوٹ نتیجہ خیز بنانے کے لئے Participatary approachاختیار کرنے کو لازمی قرار دیتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ Inteded benificaries(جنکی ترقی مقصود ہے)کی ترقیاتی عمل کے ہر مرحلے میں شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ اس کی عملی شکل شہریوں کی پالیسی و فیصلہ سازی اور عملدرآمد میں شرکت ہے۔ یہ ہی راہ اُنکی امپاورمنٹ کیلئے اُن کی اپنی کپیسٹی بلڈنگ کرے گی،چونکہ کراچی میں اب بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہوگئی ہے، وہی Inteded benificariesکے منظم اور اصل نمائندے(بنیادی سہولتوں کے حصول کے حوالے سے) تھے، اس خلاءکو پُر کرنے کے لئے کوئی تو متفقہ صورت اِن ہنگامی حالات میں نکالنا پڑے گی،اس کے لئے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت (جن کی بلیم گیم بھی بہت افسوسناک ہے) دونوں کے اتفاق سے کراچی میں موجودہ مسائل سے متعلق ماہرین (جو کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہ ہوں) اور کیپسٹی والے پوٹینشل شہری، خصوصاً جو فلاحی اداروں اور تنظیموں کے ذریعے پہلے ہی سرگرم ہیں، کو سارے آپریشن میں شامل رکھا جائے۔ یہ منتخب نمائندوں میں پیدا ہونے والے اختلاف اور فروعی رکاوٹوں کو ختم کرنے میں بھی مدد گار ہو سکتے ہیں۔ مانیٹرنگ مطلوب نتائج کیلئے ناگزیر ہے، جس کا قابلِ اعتبار اہتمام لازم ہوگا۔ اگر یہ ماڈل کامیاب ہو گیا تو، دوسرے صوبوں کے ہنگامی نوعیت کے پروجیکٹس میں بھی اسے بلدیاتی نمائندگی کے خلاتک تواختیار کیا جا سکے گا۔ وما علیناالا البلاغ۔

تازہ ترین