• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں ملک بھر میں ہونے والی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے روزانہ ایسی خبریں سننے کو مل رہی تھیں کہ آج فلاں علاقہ زیرِ آب آگیا،فلاں علاقے میں سیلابی کیفیت پیدا ہوگئ اور فلاں ،فلاں علاقوں سے برسات کا پانی اتنے یوم گزرنے کے باوجود نکل نہیں سکا ہے۔ لیکن اسے کیا کہیے کہ مون سون کا موسم گزرتے ہی ان علاقوں کے باسی پانی کی قلت سے پریشان نظر آئیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ آبی بحران سے پورا ملک پریشان ہے۔ ایسے میں پانی محفوظ کرنےکے لیے برسات کا موسم بڑی نعمت ہے جسے ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے زحمت میں تبدیل کردیتے ہیں۔

تاہم آج بھی بہت سے ہم وطن یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی قلت کی باتوں میں کوئی سچائی نہيں ہے۔ مگر اس حقیقت کی علامات پاکستان کے تقریباً ہرکونے میں پانی کی کمی، وسائل کی کمی اور آلودگی کی شکل میں نظر آرہی ہیں۔

بڑھتی ہوئی طلب اور کم ہوتا پانی

ملک میں میٹھےپانی کے ذخیروں میں کمی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث پانی کی فی کس دست یابی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ لہٰذا پاکستان پانی کے سنگین بحران کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔دو برس قبل موسمیاتی تبدیلی کے باعث آب گیری علاقوں(کیچمنٹ ایریاز) میں بارشوں کا سلسلہ معمول سے بھی کم رہا، جس کی وجہ سے ہمارے دریاؤں میں پانی کا بہاؤاس وقت کی کم ترین سطح پر پہنچ چکاتھا۔لیکن رواں برس برکھا معمول سے کہیں زیادہ برسی ہے۔

ہمارانوّےفی صد سے زیادہ میٹھا پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے اور ہماری ساٹھ فی صد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ طورپر زراعت سے وابستہ ہے۔شہروں میں پینے کے پانی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ شہر پھیلتے جا رہے ہیں،لیکن وہاں معقول یا محتاط اربن واٹر مینجمنٹ سسٹم موجود نہیں۔ کراچی میں اس ضمن میں صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ فاکن مارک واٹر اسٹریس انڈی کیٹر کے مطابق فی کس کے حساب سے جب پانی کا ذخیرہ ہزار کیوبک میٹر تک ہو تو یہاں سے پانی کی کمی شروع ہوجاتی ہے جس سے اقتصادی ترقی اور انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔پہلے پاکستان میں فی کس پانچ ہزارچھ سو پچاس کیوبک میٹر پانی کا ذخیرہ موجود ہوتا تھا۔

پھر سندھ طاس معاہدے کے بعد جہاں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی گئی وہیں آبادی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا اور ہم ہزار کیوبک میٹرپر آگئے۔ 2017ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار نے پانی کی دست یابی کے اس حساب کو پوری طرح سے بدل دیا۔مذکورہ مردم شماری کے بعد یہ حساب سالانہ ساڑھے آٹھ سو کیوبک میٹر فی کس بنتا ہے، یوں ہم پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ دریاؤں میں پانی کی کمی کا تعلق پڑوسی ملک میں ڈیموں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی جوڑا جاتاہےجو پانی کی بڑی مقدار کونیچے دریاؤں تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کےباعث آب گیری کے علاقوں میں معمول سے کم مقدارمیںبارشیں ہونا بھی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔

موثر انتظام کا فقدان

دوسری طرف ہم نے اپنے آبی ذخائرکا،جو زمین کی سطح پراور زیرِ زمین ہیں، موثر انداز میں انتظام سنبھالنے میں بہت کوتاہی برتی ہے۔چھ دہائیوں میںپاکستان نے ایک بھی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا۔دوسری جانب واپڈا کے ذرایع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ہر سال پچّیس ارب روپے مالیت کا پانی ضایع کردیتا ہے۔ برسات سے ہمیں سالانہ 145 ملین ایکڑ فیٹ (ایم اے ایف) پانی حاصل ہوتاہے جس میں سے ہم صرف 14 ایم اے ایف ذخیرہ کرپاتے ہیں۔ارسا کے اعداد و شمارکے مطابق، پاکستان سالانہ اوسطاً تیس ایم اے ایف پانی سمندر میں بہا دیتا ہے۔

یوں ہم نئے آبی ذخائر تعمیر نہ کرکے سونےجیسا قیمتی پانی ضایع کر رہے ہیں۔ موسم سرما میں ہمارا آب پاشی کا تمام دار و مدار تربیلا اور منگلا ڈیمز میں ذخیرہ کیے گئے پانی پر ہوتا ہے۔ ہماری نااہلی کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ بارشوں کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے آبی ذخائر کی عدم موجودگی اور خشک سردیوں کی وجہ سے ہمارے پانی کے زیر زمین ذخائر پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ہمارے کاشت کار اور فراہمی آب کے شہری ادارے بہت قیمتی زمینی پانی بے تحاشا کھینچ نکالتے ہیں۔

ہم زیرِ زمین موجود پانی جس مقدار میں نکال رہے ہیں اس کے مقابلے میں زیرِ زمین ذخائر میں بہت ہی کم پانی ڈال رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سالانہ تین تا چار ایم اے ایف کے خسارے کا سامنا ہے اور ہمارے زیرِ زمین آبی ذخیرے میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ زیر زمین پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے رین واٹر ہارویسٹنگ اور جزوی طور پر گندے پانی کی جھیلوں سے ٹریٹ کیے ہوئے پانی کے ذرایع مسئلے کے حل کے لیے موجودتو ہیں، مگر ہم یہ اقدامات بڑے پیمانے پر اٹھانے سے ابھی کوسوں دور ہیں۔ ہمارے قومی اور صوبائی سطح کے واٹر مینجمنٹ کے اداروں، بلدیاتی اداروںاور صحت عامہ اور آب پاشی کے محکموں کو آبی ذخائر کا انتظام موثر بنانے کے کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پختہ عزم کرنا ہوگا کیوں کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ پانی کی قلت ہے۔

ان حالات میں ہمارے ہاں جب بارش ہوتی ہے تو عام طورپر شہری علاقوں میں کافی مقدار میں پانی چھتوں ، گلیوں، سڑکوں،باغات اور راستوں سے ہوتا ہوا گندے نالوں میں چلا جاتا ہے۔دوسرا نقصان یہ ہوتاہے کہ پاکستان کا پہلے سے ناقص اورکم زور نکاسی کا نظام اتنے زیادہ پانی کا بوجھ برداشت نہیں کرپاتا اور نہ صرف بند ہو کر مزید مصیبت کا باعث بنتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ کر دیتا ہے۔

کافی جگہوں پر یہ پانی جوہڑ اور دلدل کی شکل ختیار کر لیتا ہے جہاں مچھر اور مکھیاں پرورش پا کروبائی امراض کا باعث بنتی ہیں اور ہمیں صحت پر اور زیادہ بجٹ خرچ کرنا پڑتا ہے۔شہروں کی سڑکوں پر جمع ہو کریہ پانی بدترین ٹریفک جام کا سبب بنتاہےاور شہر یو ں کے ساتھ بلدیاتی اداروں کے مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے۔

زیرِ زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح

ہمارے ہاں جب موسم گرما کا آغاز ہوتا ہے تو ہمیں پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت ہمارے دریا عموماً خشک ہو تے ہیں ۔اس طرح متبادل ذرایع، مثلاً زمینی پانی پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔نتیجتاً ہمارے ٹیوب ویلز اور کنووں کو معمول سے زیادہ کام کرنا پڑتاہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں زمینی پانی کی سطح مسلسل گرتی جا رہی ہے۔جہاں پہلے محض بیس فیٹ کی کھدائی سے پانی نکل آتا تھا اب دوسوفیٹ کے بعد جا کر نکلتا ہے۔ 

اسی طرح پانی کے بے دریغ استعمال اور مانگ سے بھی زمینی پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔شہروں میں تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافے اور نکاسیِ آب کے ناقص نظام نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے اور آج پاکستان کی شہری آبادی ،خصوصا ،گونا گوں مسائل کا شکار ہو چکی ہے۔

رین واٹر ہارویسٹنگ

اگر ہم تھوڑی سی کوشش کریں تو آسان طریقوں سے برسات کا پانی جمع کرکے مفید کاموں میں استعمال کرسکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ٹینک نصب یا تعمیر کرنا پڑتے ہیں اور اگر یہ طریقہ زیادہ منہگا پڑے تو محض زمین میں گڑھے اور تالاب بنا کر بھی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ ان تالابوں یا گڑھوں میں یہ پانی جمع کرکےنہ صرف مفید کاموں میں استعمال کیا جا سکتاہے بلکہ زمین میں جذب ہو کر یہ زیرِ زمین پانی کی گرتی ہو ئی سطح کو سنبھالا بھی دے سکتا ہے۔پانی جمع کرنے کے اس عمل کوانگریزی میں Rainwater Harvestingکا نام دیا گیا ہے ۔

اس تیکنیک کے ذریعے ہم ضایع ہوتےہوئے برساتی پانی کو جمع کرکے مذکورہ بالا تمام مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔اس تیکنیک سے نہ صرف زمینی پانی کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اسے گھریلو کاموں میں، آب پاشی، کاشت کاری اور دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس وقت یہ تیکنیک دنیا کے کئی حصوں میں کام یابی سے استعمال کی جا رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی۔ دوسری جانب ہم سایہ ملک ،بھارت کے دیہی علاقوں میں بھی اس طرح کے واٹر ٹینک،چیک ڈیم اور کنوویں یا تالاب جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ مثلاً راجستھان کے گائوں کشوری میں کسانوں نے اس مقصد کےلیے جوہڑیا چیک ڈیم بنا رکھے ہیں جہاں وہ بارش کا پانی جمع کر کے سال بھر استعمال میں لاتے ہیں۔

اس نظام میں درج ذیل مراحل شامل ہیں:ابتدائی طور پر بارش کے پانی کو ٹینکس میں جمع کرنا۔جمع شدہ پانی کو صاف کرنا۔صاف اور قابل استعمال پانی کوٹینکس میں جمع کرنا۔

شہری علاقوں میں بارش کا پانی عمارتوں کی چھتوں، سڑکوں، گلیوں،پختہ اورکچے راستوں،کھلی جگہوںاور علاقوں سے جمع کیا جا سکتا ہے۔یہ اکٹھا کیا گیا پانی بیت الخلا،کپڑے، گاڑیاں اور فرش دھونے، باغ بانی یا تعمیراتی کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر یہ پانی صاف ہو تو اسے پینے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔نیز اگر اس پانی کو زمین میں جذب ہونے دیا جائے تو اس سے زیرِ زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

نمایاں مثالیں

ترقی یافتہ ممالک میں نئی عمارتوں میں اس طرح برساتی پانی کو جمع کرنے کے نظام کو لازمی جزو کے طور پر اختیار کیا جا رہا ہے۔اس وقت یہ تیکنیک جاپان کے شہر ٹوکیو میں کام یابی سے استعمال کی جا رہی ہے اور اس سے پانی کی قلت دور کرنے، سیلابوں کی روک تھام اور ہنگامی حالات کے لیے پانی کو بچا کر رکھنے جیسے مقاصد پورے کیے جا رہے ہیں۔جرمنی کے شہر برلن میں1998میں اس نظام کو بڑے پیمانے پر شہری ترقّی کے ایک لازمی جزو کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ تھائی لینڈ میں چھتوں سے برساتی پانی بڑے بڑے برتنوں میں اکٹھا کیا جاتا ہے جو اعلیٰ معیار کے پینےکے پانی کے حصول کا ایک سستا اور مناسب ترین ذریعہ ہے۔

بنگلا دیش کے جن علاقوں میں پانی میں سنکھیا یا آرسینک کی مقدار زیادہ ہے وہاں بارش کاپانی اکٹھا کر کے بہترین متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ پانی پینے اورکھانا پکانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اورمقامی آبادی میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے ۔ تنزانیہ میں پائپس کے ذریعے پانی فراہم کرنے کی عدم صلاحیت کے متبادل کے طور پر یونیورسٹی آف تنزانیہ نے اپنے اسٹاف کی نئی تعمیر ہونے والی رہائشی کالونیز میں یہ تیکنیک متعارف کرائی ہے۔

برمودا میں باقاعدہ قانون منظور ہوا ہے جس کے تحت تمام نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں میں برساتی پانی اکٹھا کر نے کے نظام کی تنصیب لازمی قرار دی گئی ہے۔بھارت کے شہر چنائی، بنگلور اور دہلی میں اسے باقاعدہ ریاستی پالیسی اور نئی عمارتوں کے بلڈنگ کوڈ میں شامل کیا گیا ہے۔برکینا فاسومیں رین واٹر ہارویسٹنگ کو لائیو اسٹاک اور زرعی مقاصدکےلیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

کینیا میں یہ روایت طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔تنزانیہ کے ضلع موندولی میں برساتی پانی لایئو اسٹاک کے لیے اور ایتھوپیا میں زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔برطانیہ میںCode for Sustainable Homes متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت نئے گھروں میں زیر زمین ٹینکس کی تنصیب کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جن میں جمع شدہ برساتی پانی کو ٹوائلٹ، لانڈری، باغ بانی اور کار واشنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

تیکنیک

رین واٹر ہار ویسٹنگ میں کئی تیکنیک شامل ہیں، مثلاً عمارتوں کی چھتوں، زمین کی سطح اورندی نالوں سے پانی اکٹھا کرنا۔یہ طریقے ایشیا میںپینے کے پانی اور کھیتی باڑی کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔عام طور پر بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا عمل تین اہم طریقوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی، ایسے علاقے جہاں پانی اپنے قدرتی بہائو کے تحت خودبہ خود نشیبی سطح پر اکٹھا ہو جاتا ہے، پانی کو ایک رخ پر بہا کر مطلوبہ جگہ پر جمع کرنا، مناسب مشینری کے ذریعے پانی کو جمع کرنا۔

عام تیکنیک میں چھتوں پر اکٹھا ہونے والا بار ش کا پانی پرنالوں کے ذریعے نیچے بنے ہوئے ٹینکس یا گڑھوں میں جمع کیا جاتا ہے۔ اس پانی کے معیارکا انحصار چھت کی ساخت پر ہوتا ہے۔ اگر ڈھلوانی چھت مخصوص لوہے، ایلومینیم ، ایسبسٹاس کی چادروں، سیمنٹ کی ٹائلز یا مضبوطی سے بندھے ہوئے بانسوں سے بنی ہوئی ہو تو کافی حد تک صاف پانی حاصل ہوتاہے۔ تاہم بانس سے بنی چھت کا پانی صحت کے لیے مضر ہوتا ہے۔ اسی طرح دھاتی پینٹ سے رنگ کی گئی چھتوں کے پانی میں ان دھاتوں کا ذائقہ یا رنگ شامل ہو سکتا ہے۔ چھتوں سے صاف اور معیاری پانی اکٹھا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں باقاعدگی سے صاف کیا جاتا رہے۔

زمین کی سطح سے پانی جمع کرنے کا طریقہ قدرے آسان ہے۔اس طر یقے میں زمین کی سطح کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پانی ایک جگہ جمع ہو جاتا ہے۔اس مقصد کے لئے نالیوں، پائپس یا قدرتی بہائو کے ذریعے کم لاگت سے بنائے گئے مٹی کے ڈیمز یا زیر زمین گڑھوں میں پانی کو لایا جاتا ہے۔چھتوں کے مقابلے میں زمین کی سطح کا رقبہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے پانی بھی زیادہ مقدار میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ یہ تیکنیک زیادہ تر زرعی مقاصد کے لیے پانی جمع کرنے میں معاون ہوتی ہے۔یہ پانی خشک موسم میں کام آتا ہے۔ اس طریقے میں پانی کی زیادہ مقدار ضایع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ جھاڑیوں اور پودوں کو زمین کی سطح سے صاف کر دیا جائے، تاہم اس سے زمین کٹائو کا شکار ہوسکتی ہے۔

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسی زمین کی سطح پر گھاس اگائی جائے جس کے درمیان پانی کا بہائو بھی تیز ہوتا ہے اور یہ زمین کو کٹائو سے بھی بچاتی ہے۔ایسی زمین کی سطح کو مٹی ڈال کرزیادہ ڈھلوانی بنایا جائے تاکہ پانی بآسانی بہہ کر اپنے ذخیرے میں پہنچ سکے۔اس تیکنیک میں بھی زمینی کٹائو کا خطرہ موجود رہتا ہے جسے زمین کی ڈھلوان کے ساتھ پلاسٹک شیٹ، اسفالٹ، ٹائلز یا لوہے کی چادروں کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا میں لوہے کی روغنی چادریں اس مقصد کے لیے پیسنٹھ سال سے استعمال کی جارہی ہیں۔

پانی کے بہائو کو بڑھانے اور زمین کو کٹائو سے بچانے کے لئے زمین کی سطح کو رولر یا سہاگے کے ذریعے سخت کیاجاتا ہے۔پانی کے تیز بہائو میں ٹھہرائو لانے کےلیے اس کے راستے میں عمودی چبوترے بھی تعمیرکیےجاتے ہیں ۔ زمین کو سخت کرنے کے لیے کیمیائی مادے انسانی صحت کےلیے مضر ہو سکتے ہیں اس لیےان سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔

جمع شدہ پانی کی منتقلی

چھتوں پر جمع شدہ پانی کو دوسری جگہ منتقل کرنا (Conveyance System) بھی ایک تیکنیک ہے۔ بعض اوقات جب چھتوں پر پانی جمع ہو جاتا ہے تو وہ پرنالوں کے ذریعے خودبہ بخود نیچے ٹینک تک نہیں جا سکتا بلکہ اسے خاص تیکنیک کے ذریعے ٹینکس تک منتقل کیا جاتا ہے۔ اس طریقے کوکنوینس سسٹم کا نام دیا گیا ہے۔عام طور پر اس مقصد کے لیے پائپ استعمال کیے جاتے ہیں۔اس میں یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ جب بارش شروع ہوتی ہے تو پہلی دفعہ چھت پر جمع شدہ مٹی اور دھول سے آلودہ پانی ٹینک میں چلا جاتا ہے۔ جس سے نسبتاً صاف پانی میسر نہیں آتا۔

اس خامی پر قابو پانے کے لیے جوتیکنیک استعمال کی جاتی ہے اس کے مطابق صاف پانی والے ٹینک تک جانے والے پائپ کے راستے میں فنل لگادی جاتی ہے۔چوں کہ شروع میں بارش کم ہوتی ہے اور پانی کادبائو بھی کم ہوتا ہے اس لیے یہ آلودہ پانی پائپ کی اندرونی سطح کے ساتھ سفر کرتا ہوا سیدھا زمین پر چلا جاتا ہے لیکن جب بارش تیز ہوتی ہے تو پائپ پورا بھر جاتا ہے اور صاف پانی دوسرے پائپ کے ذریعے ٹینک میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔اس تکنیک میں پلاسٹک، پی وی سی یا زنگ سے محفوظ رہنے والے میٹیریل سے بنے ہوئے پائپ استعمال کرنے چاہیں ورنہ دھات یا زنگ کے مضر صحت ذرات پانی میں شامل ہو سکتے ہیں۔

مشینوں کے ذریعے پانی منتقل کرنے کا (Storage Devices ) طریقہ وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں پانی پہلے دو طریقوں سے ٹینک تک نہ جاسکے، کیوں کہ یہ ٹینک زمین یا چھت کی سطح سے اوپر ہوتے ہیں۔ اس تیکنیک میں عام طور پر موٹر پمپ استعمال کیا جاتا ہے جو پانی کو کھینچ کر اوپر تک لے جاتا ہے تاہم اس میں ضروری ہے کہ ٹینک کا ڈھکن مضبوطی سے بند ہو ورنہ اس میں الجی یا مچھر اور مکھیاں پرورش پا سکتی ہیں۔کھلے ٹینک کا پانی پینے کے لیےاستعمال نہیں کیا جا سکتا۔

ری چارج کی تیکنیک

زیرِ زمین پانی کی سطح برقرار رکھنے کے طریقے:زمینی پانی کی سطح برقرار رکھنے کے لیے بارش کے جمع شدہ پانی کو استعمال کرنے کا طریقہ نیاہے۔اس میں درج ذیل تیکنیک استعمال کی جاتی ہیں:

گڑھے: زمین کی کھلی سطح پر ایک سے دو میٹر چوڑے اور تین میٹر گہرے گڑھے کھود کر انہیں پتھروں، کنکریوں اور موٹی ریت سے بھر دیا جاتا ہے۔

کھائیاں یا خندقیں: یہ وہاں مناسب رہتی ہیں جہاں زمین زیادہ کھلی ہو۔ عام طور پر ایک کھائی نصف یا ایک میٹر چوڑی،ایک سے ڈیڑھ میٹر گہری اور دس تا بیس میٹر طویل ہوتی ہے۔ اسے بھی پتھروں، کنکریوں یاموٹی ریت سے بھر دیا جاتا ہے۔

کنویں یا رہٹ: پہلے سے موجود کنویں یا رہٹ بھی زمینی پانی کی سطح بڑھانے میں معاون ہوتے ہیں۔ تاہم انہیں آلودگی سے بچانےکے لیے ضروری ہے کہ پہلے پانی میں موجود کثافتیں مناسب طریقے سے صاف کر لی جا ئیں۔

نلکے: نلکے یا دستی پمپ و ہاں موثر ہوتے ہیں جہاں برساتی پانی کی دست یابی محدودہوتی ہے۔ یہ زیادہ گہرائی تک پانی کی سطح میں اضافہ کرنےکے لیے بہتر کردار ادا کرتے ہیں۔

ری چارج کنویں: یہ عام طور پرسو تا تین سو ملی میٹرچوڑے ہوتے ہیں اور وہاں تعمیر کیے جاتے ہیں جہاں پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہو۔ ان میں کثافت کوجانے سے روکنا ضروری ہے۔

ری چارج شافٹ : کھلے علاقے میں زمینی پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیےیہ شافٹ نصف تاتین میٹر چوڑی اور دس سے پندرہ میٹر تک گہری تعمیر کی جاتی ہے اور اسے بھی کنکریوں، موٹی ریت یا پتھروں وغیرہ سے بھر دیا جاتا ہے۔

لیٹرل شافٹ معہ بور ویل : یہ شافٹ بور والے ایک یا دو کنووں کے ساتھ تعمیر کی جاتی ہے اور ڈیڑھ سے دو میٹر چوڑی اوردس تا تیس میٹر لمبی ہوتی ہے۔ اسے بھی کنکریوں، پتھروں یا ریت سے بھر دیا جاتا ہے۔

پانی کو کھلا چھوڑ دینا : اس تیکنیک میں بارش کے پانی کو ندی نالوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور ساتھ چیک ڈیم، نالا بند، سیمنٹ پلگ یا چھوٹے چھوٹے تالاب تعمیر کر دیے جاتے ہیں جن سے پانی جذب ہو کر زمین میں چلا جاتا ہے۔

ملکی مثالیں

 سی ڈی اے(CDA) اسلام آباد نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرامUNDP اور پاکستان کونسل آف ریسرچ فار واٹر ریسورسز(PCRWR)کے تعاون سے فیصل مسجد کے صحن میں بارش کا پانی جمع کرنے کا پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ اسی طرز کے بیس دیگر منصوبے اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں شروع کیے جانے ہیں۔ قبل ازیں ایرا (ERRA) نے زلزلے کے بعد آزاد جموں و کشمیر اور خیبر پختون خواہ کے متاثرہ علاقوں (باغ، راولا کوٹ، مظفر آباد اور ایبٹ آباد) میں بھی چھتوں اور کھیتوں کے پانی کو جمع کرنے کے مختلف منصوبوں پر کام شروع کیا تھا جنہیں مزید تیکنیکی معاونت کی ضرورت ہے۔

برسا ساون تھارے دُوار، پھر قہر کا عالم
لاہور میں برسات کا پانی جمع کرنے کا منصوبہ

پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں بارش کے پانی کا ذخیرہ کر کے اسے شجر کاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔اس منصوبے کے تحت لاہور کے لارنس گارڈن میں ایک زیر زمین ٹینک بنایا گیا ہے جس میں لاہور شہر کے گلی کوچوں میں بہتا ہوا بارش کا پانی ذخیرہ کیا جائے گا جسے بعد ازاں بہ وقت ضرورت استعمال کیا جاسکے گا۔لارنس گارڈن کے پارک میں تعمیر کیے جانے والے اس ٹینک کا رقبہ 14,000 اسکوائرفیٹ، گہرائی پندرہ فیٹ اور پانی ذخیرہ کرنے کی گنجایش چودہ لاکھ گیلن ہے۔ منصوبے کی مدت تکمیل تین ماہ اور اس پر 15 کروڑروپے لاگت آئی ہے۔رواں موسم برسات میں اس کی آزمایش شروع کی جاچکی ہے۔

دوسری جانب پنجاب حکومت نے برساتی پانی کو زیرِ زمین ذخیرہ کرنے کے منصوبے کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کرلیاہے اورایسے منصوبےصوبے کے دیگر شہروں میں بھی شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ لاہور کے ساتھ پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں بارش کاپانی ذخیرہ کرنے کے لیے زیر زمین ٹینک بنائے جائیں گےجن میں ذخیرہ کیا گیا پانی ہارٹی کلچرکے لیے استعمال کیا جائے گا اوراسے صاف کرکے پینے کے قابل بھی بنایا جا سکے گا۔

دوسری جانب یہ خبر ہے کہ کراچی کے شہری اور سابق چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی، انور شاہ نےگزشتہ دنوں بارش کا پانی محفوظ کرنے کے پرانے طریقے سے پانچ ہزار گیلن برساتی پانی ذخیرہ کرلیا۔انہوں نے دس فیٹ گہرے اوربارہ فیٹ لمبے زیر زمین ٹینک میں بارش کا پانی محفوظ کرلیا ہے۔فائبر اور پلاسٹک کے ٹینکس میں چھت پر لگائے گئے پائپس کے ذریعے بھی پانی محفوظ کیا گیا۔انور شاہ کے بہ قول وہ ذخیرہ شدہ پانی باغ میں پودوں کی ضرورت کے لیےاستعمال کریں گے اور یہ پانی تین ماہ سے زاید عرصے تک ان کی اس ضرورت کو پورا کرسکے گا۔

پانی کی کمی کے ضمن میں پاکستان جن گمبھیر مسائل سے دوچار ہے ان کے حل کے لیے اس وقت اجتماعی سوچ اور عمل کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں ہر گھر اور ہر فرد کو پانی جیسی نعمت کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔یعنی ہم میں سے ہر ایک کو اس ضمن میں بھر پور معاونت کرنا ہو گی۔ عوام کو اپنی بقا کے لیےخود آگے بڑھنا ہو گا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر تجارتی عمارت اور رہایش گاہوں میں برساتی پانی جمع کرنے کا نظام نصب کیا جائے۔

تازہ ترین