• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب نئے ملک وجود میں آتے ہیں تو سرحدوں کی نشاندہی کرنے والی لکیریں اور پھر سفر کرنے والے راستوں پر آہنی اور خاردار دیواریں فوری طور پر کھڑی کرکے ظاہری حد بندی کر لی جاتی ہے مگر کچھ باطنی مسائل بہت دیر تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہوائوں کو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک علاقے کی خوشبوئیں، دھواں، گرد و غبار اور احساس میں رچے دُکھ دوسری سمت لا ڈھیر کرتی ہیں۔ یہی حال پرندوں کی اٹکھیلیوں کا بھی ہے۔ ویزے کے لمبے چوڑے عمل سے گزرنے کی نوبت سے ناآشنا ایک لمحے کی پرواز سے دوسری سمت کے درخت پر جا بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح مشترک ماضی اور کلچر بھی صدیوں تک انسان کے شعور میں تازہ رہتے ہیں۔ ماضی تو تاریخ کی کتابوں میں سجا دیا جاتا ہے مگر کلچر ایک حقیقت کی طرح اردگرد رقصاں رہتا ہے۔ خصوصاً جب تقسیم کی بنیاد عقیدہ اور مذہبی اقدار پر استوار ہو۔

ابتداء میں انسان فطرت سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھا۔ فطرت اس کی استاد تھی اور تجربہ گاہ بھی، رفیق اور غمگسار بھی۔ ماں کی طرح پالتی، خوراک دیتی اور باپ کی طرح سایہ فراہم کرتی تھی۔ ماحول سے اُس کا رویہ فطری اصولوں کی ہمہ گیری سے تشکیل پایا۔ تحفظ کے احساس نے اسے آسمان کے چھت اور زمین کے مخملیں قالین سے پتھروں کی جھونپڑی کی طرف راغب کیا تو دماغ نے الگ دنیا کے نقشے بتانے شروع کر دیے حالانکہ کائنات کی تصویر میں وہ اس تمام منظر کا حصہ تھا۔ وہ چیزیں سیکھتا، اختیار کرتا اور عادت کا حصہ بناتا گیا۔

انسان جبلی اور ثقافتی سطح پر ایک ساتھ ترقی کرتا ہے۔ روحانیت اخلاقی، قانونی نظام، علم و ادب، زبان، سائنس، فنون اور جغرافیہ ثقافتی سطح میں شامل ہوتی ہے۔ کلچر کے پنپنے کے لئے سماج کا وجود ضروری ہے جس میں یہ دست بدست اگلی نسلوں تک منتقل ہوتا ہے اور کسی حد تک دیگر قوموں پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ سماجی ماحول میسر نہ ہو تو فرد تہذیب و تمدن اور کلچر سے ناآشنا ہو گا۔ اگر کسی نومولود بچے کو جنگل کی زندگی کے حوالے کر دیا جائے تو وہ جبلی سطح پر بھرپور ترقی کرے گا مگر اس کی ثقافتی سطح معدوم ہو جائے گی۔ وہ زبان، لباس، علوم، اخلاقیات اور جمالیات سے بےبہرہ ہوگا۔

پاکستانی کلچر ایک الجھا ہوا موضوع ہے۔ کیا کلچر کو سرحدوں کی چار دیواری کے اندر تک محدود کر کے دیکھا جائے۔ کیا ماضی کی تہذیب سے تعلق قائم رکھا جائے یا منقطع کر دیا جائے۔ اگر اسلامی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو کیا دنیا میں کوئی وسیع تر اسلامی کلچر موجود ہے۔ اگر اسے بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی یہ بحث اہم ہے کہ کلچر کا تعلق عقائد سے کہیں زیادہ زمین اور اس سے جڑے رشتوں سے ہوتا ہے۔ ہم اپنی زمین کے گیت میں آواز ملائیں گے تو کیا وہ ہمارے جداگانہ تصور کے ساتھ ہم آہنگ ہو گی؟ پانچ ہزار برس قبل وادیٔ سندھ، موہنجودوڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے آغاز کریں جو کھیتوں، دریائوں، جنگلوں اور صحرائوں سے جڑت رکھتی تھی اور حیرت ناک حد تک آج کے پاکستانی سماج میں اُس دور کی تہذیب کے تمام عناصر موجود ہیں۔

رفتہ رفتہ مختلف نظریات کے حامل حکمرانوں کی آمد و رفت سے مخلوط کلچر وجود میں آیا جس میں آریائی سےدیگر تہذیب کے عناصر موجود تھے۔ پاکستان کے کلچر کو بعض لوگوں نے نیکی، عدل، مساوات جیسی اقدار کو شامل کرنے کے بجائے ان مشترکہ تہواروں کو کاری ضرب لگائی جو نہ صرف افراد کی تفریح کا اسباب فراہم کرتے تھے بلکہ انسانی قدروں کی ترویج کا بھی وسیلہ تھے۔ بسنت، وساکھی جیسے کئی تہواروں سے دستبرداری اختیار کر کے ہم خود کو خالی کرتے جا رہے ہیں۔

علم و ادب کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ دست بدست منتقل ہونے والے کلچر کی تعریف اور تشریح کے لئے جامعات اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں دو انتہائی مثبت سوچ کے حامل پروفیسر ڈاکٹر نیاز اختر اور ڈاکٹر سلیم اختر نے جب سے انتظامی عہدے سنبھالے ہیں جامعہ کو علم کے ساتھ ساتھ ادبی و ثقافتی سطح پر بھی ترقی کی جانب لئےجا رہے ہیں۔ شعبۂ اردو کے چیئرمین ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی مرتب کردہ کتاب ارمغانِ جمیل کی رونمائی بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ادب، تحقیق، لغت، تنقید، تراجم کے ساتھ ساتھ کلچر کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی دانش کا معمار ہیں، جن کی بصیرت افروز نگاہ نے معاشرے کی ایسی راہداریاں تعمیر کیں جن پر نئی نسل چل کر اپنی تہذیب سے روشناس ہو سکتی ہے اور فکری سفر کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے تحقیق، کلچر کے حوالے سے جو گراں قدر خدمات سر انجام دیں وہ پاکستانی سماج کے لئے کسی تحفے سے کم نہیں۔ خصوصی طور پر کلچر کے حوالے سے اُن کے اُٹھائے گئے سوالات اور اُن کے جوابات تلاش کرتے ہوئے طویل مباحث کے ذریعے لوگوں کی تربیت کی ہے۔ کلچر کیا ہے، اس کے خدو خال کیا ہیں، پاکستانی کلچر کیا ہونا چاہئے، صوبائی اور قومی کلچر کی سانجھ کیسے ہوسکتی ہے کیسے دونوں ایک دوسرے کی ترقی اور ترویج کر سکتے ہیں۔ برصغیر کے تہذیبی اثاثے کو کیسے اپنایا جا سکتا ہے۔ کلچر کی روحانی اور مادی اقدار کیا ہیں۔ مسلمانوں نے کلچر کے ضمن میں کیا خدمات اور کوتاہیاں کی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں کو اپنے پی۔ ایچ۔ ڈی، ایم۔ فل کے طلباء سے تحقیقی مقالے لکھوائے ہیں اور پھر ایک تعلق اور تحقیق کی خوشبو کے عنوان سے ایک خوبصورت تحریر کے ذریعے ڈاکٹر جمیل جالبی کی شخصیت اور کارناموں پر نظر ڈالی ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں کے کلچر کو پھلنے پھولنے اور زمین سے رشتےکو مضبوط بنانے کے لئے موقع فراہم کرنا چاہئے۔ کلچر کو متنازعہ بنانے کے بجائے زمینی حقیقتوں اور زمینی دانش سے رابطے کی ضرورت ہے۔ یقیناً اپنی زمینی ثقافت کے رنگ اوڑھ کر ہم ایک کلچرڈ قوم بن سکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین