• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی کے سفاک فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو یقین تھا کہ جب پاکستان کی سرزمین پر ان کا طیارہ لینڈ کرے گا تو پورا پاکستان ان کے استقبال کے لئے وہاں امڈ پڑے گا مگر ایئر پورٹ پر چند درجن لوگوں کے سوا کوئی ان کے خیر مقدم کے لئے موجود نہیں تھا دراصل دنیا کے تمام آمر خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ خواب بہت سہانے ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ایک دنیا ان کی محبت بلکہ عشق میں مبتلا ہے۔ وہ بولتے ہیں تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ وہ اٹھتے ہیں تو پوری دنیا ان کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوتی ہے، مگر وہ نہیں جانتے کہ جب وہ ”بیٹھتے“ ہیں تو ان کے ساتھ ہی سب کچھ ”بیٹھ“ بھی جاتا ہے! مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جنرل صاحب آخر کیا سوچ کر پاکستان آئے تھے اور اگر آ ہی گئے تھے تو اپنے فارم ہاؤس میں دو دن کی پُر آسائش نظر بندی کے ساتھ ہی انہیں اپنی والدہ کی یاد کیوں ستانے لگی اور وہ واپس دوبئی جانے کے لئے کیوں ہاتھ پاؤں مارنے لگے ہیں۔ ان کے وکیل احمد رضا قصوری ”ملکہٴ جذبات“ بنے ٹی وی پر آتے ہیں اور کچھ اس طرح کی بات کرتے ہیں کہ ظالمو، جنرل صاحب کو اپنی والدہ سے ملنے سے نہ روکو انہیں رہا کر دو، انہیں اپنی والدہ بہت یاد آ رہی ہیں۔ یہ وہی جنرل صاحب ہیں جنہوں نے پاکستان کے آئینی آرمی چیف جنرل ضیاء الدین کو 10X10 سائز کے پنجرے نما کمرے میں قید کر دیا تھا، جنہوں نے اپنے وزیراعظم کو کراچی سے لاہور لاتے ہوئے ہوائی جہاز میں زنجیروں سے باندھ دیا تھا، جنہوں نے شریف برادران کے والد کی وفات پر انہیں ان کے جنازے میں شریک ہونے سے روک دیا تھا، جنہوں نے پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، صدیق الفاروق، بلال یٰسین اور سینکڑوں دیگر سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو ان کے گھروں میں قید کر دیا تھا۔ آج انہیں اپنی والدہ کی یاد ستا رہی ہے اور وہ اس بہانے ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔ اگر وہ کچھ دن مزید نظر بند رہے تو والدہ کو وہ بھول جائیں گے اور انہیں نانی یاد آنا شروع ہو جائے گی۔ یہ وہ شخص ہے جو وردی کے بل بوتے پر مکے فضا میں لہراتا تھا اور خود کو ناقابل تسخیر قرار دیتا تھا۔ اب اس کی ساری اکڑ فوں غائب ہو گئی ہے اور وہ فرار کے راستے ڈھونڈ رہا ہے!
میں ان کی خدمت میں اور ان کے وکیل کی خدمت میں اپنا ایک پرانا کالم پیش کر رہا ہوں جو پاکستان پر ان کے غاصبانہ قبضے کے تھوڑے دنوں کے بعد ہی میں نے لکھا تھا اور اخبارات میں شائع ہوا تھا، اس کالم کا پس منظر یہ تھا کہ میاں شہباز شریف کی ضعیف والدہ اپنے قیدی بیٹے کو ملنے جیل کے دروازے پر پہنچیں تو ظالموں نے ماں بیٹے کی ملاقات نہیں ہونے دی اور وہ آنسو بہاتی ہوئی واپس لوٹ گئیں۔ یہ کالم پڑھیئے اور پھر سوچئے کہ قوم کو اس شخص کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے جس کے عہد ستم میں انصاف نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی! کالم پیش خدمت ہے:۔
”میاں شہباز شر یف کی ضعیف والدہ جیل میں اپنے بیٹے شہباز سے ملنے کے لئے گئیں اور جیل والوں نے ملاقات کرانے سے انکار کر دیا، جس پر یہ دکھی ماں روتی ہوئی واپس چلی گئی!
میرے خیال میں جس کسی نے ایک ماں کو اس کے سلاخوں کے پیچھے قید بیٹے سے ملنے نہیں دیا، وہ کوئی بہت ہی بدنصیب شخص ہے، یا تو اس شخص کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی ماں کی وفات واقع ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ ماں کی محبت، شفقت اور عظمت سے واقف ہی نہیں ہو سکا یا وہ سنگدل شخص ہے کہ ساری عمر خود اس کی اپنی ماں اس کے ہاتھوں روتی رہی ہے۔ لہٰذا کسی دوسرے کی ماں کے آنسو اس کے دل پر کیا اثر کر سکتے ہیں؟ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ماں بیٹے کے ملنے میں آخر کیا قباحت تھی، اس ماں کے ہاتھوں میں بم یا کلاشنکوف تو نہیں تھی، زیادہ سے زیادہ اپنے بچے کے لئے کھانے کی کوئی چیز، لب پر دعائیں اور دل میں آہیں ہوں گی، اور ان چیزوں سے کسی حکومت کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔
اور یہ ماں بھی شہباز شریف کی ہے جس کے بیٹے کی بہترین انتظامی صلاحیتوں، پنجاب کے لئے ترقیاتی کاموں اور سب سے پرانے سماجی، معاشی اور سیاسی ناسوروں سے عوام کو نجات دلانے کے حوالے سے پنجاب کے عوام حتیٰ کہ خود ہمارے فوجی بھائی بھی دل سے معترف ہیں، پھر اسے عدالت سے بری بھی کر دیا گیا ہے، ابھی تک اس پر کوئی الزام بھی ثابت نہیں ہوا، اس کے باوجود یہ پابندیاں جو عام قیدیوں پر بھی لاگو نہیں ہوتیں ایک قابل احترام شخص پر کیوں عائد کی جا رہی ہیں؟ ایسے مواقع پر عموماً سارا بوجھ مشیروں پر ڈال دیا جاتا ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ آخری ذمہ داری بہرحال مشورہ ماننے والے پر ہی عائد ہوتی ہے، موجودہ حکومت کو ابتداء میں کچھ لوگوں نے نواز شریف دشمنی کی بناء پر خوش آمدید کہا تھا۔ اب ان ”بغض معاویہ“ والوں کی حمایت سے بھی آہستہ آہستہ محروم ہوتی چلی جا رہی ہے، دکاندار پریشان ہیں، کاروباری لوگ پریشان ہیں، غریب آدمی پریشان، بیورو کریسی پریشان، سیاسی کارکن پریشان اور جنہیں پاکستان کا وجود حرم کعبہ کی طرح مقدس لگتا ہے، وہ اس کی سلامتی کے حوالے سے پریشان ہیں، پاکستان کی سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، اور اگر خدانخواستہ جنگ چھڑ جاتی ہے تو پاکستان کے تمام روایتی دوست اس دفعہ عملی طور پر بلکہ شاید اخلاقی طور پر بھی ہماری مدد سے کترائیں، اور جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے، تمام تر کوششوں کے باوجود ان کی اکثریت ابھی تک پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے۔ میاں نواز شریف ایسے نیک دل انسان اور ان کے دینی گھرانے کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا اس سے لوگوں کے دل زخمی ہیں، اگر لوگ سڑکوں پر نہیں آئے تو ان کا انجام دیکھ کر نہیں آئے جو سڑکوں پر آئے تھے، لوگوں کے جذبات سے اندازہ صرف منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہی سے لگایا جا سکتا ہے بہرحال ان حالات میں جب ملک کی سلامتی خطرے میں ہو قومی قیادت اور ان کے پیروکاروں کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ فوجی حکومت کو باہر سے کوئی مدد نہیں مل سکی، کم از کم اپنے لوگوں کو تو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے مثبت اقدامات کریں!
میں معذرت چاہتا ہوں، مجھے لگتا ہے میرا لہجہ تلخ ہو گیا ہے مگر جب مسئلہ پاکستان کا ہو میں لفظوں کا مناسب استعمال بھول جاتا ہوں، میں موجودہ فوجی حکومت سے دست بستہ گزارش کروں گا کہ وہ مخبروں کی غلط ملط رپورٹوں، خوشامدیوں کی خوشامدوں، اقتدار میں موجود سویلین افراد کی ہوس اقتدار اور اقتدار سے باہر عوامی حمایت سے محروم سیاسی جماعتوں کے بیانات کو اپنی موجودگی کا جواز نہ بنائیں ملکی حالات انتہائی خطرناک نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ دیکھ چکے ہیں، اب قوم حوصلہ افزاء اور بہلاوا دینے والے بیانات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں، لہٰذا جتنی جلدی ممکن ہو براہ کرم واپس اپنی بیرکوں میں جائیں اور حکومت سیاستدانوں کے حوالے کریں جن کی ساری تربیت اسی حوالے سے ہے اور ہاں ماں کی آنکھوں سے آنسو نہ بہنے دیں، میں نے سنا ہے کہ جب کسی ماں کی آنکھ سے آنسو بہتا ہے تو اس سے عرش عظیم ہل جاتا ہے۔!“
تازہ ترین