• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوازشریف اور پرویز مشرف چاہے جو مرضی کہیں یہ حقیقت ہے کہ جب دسمبر 2000ء میں سابق وزیراعظم اپنے کنبے سمیت سعودی عرب چلے گئے تو دونوں حضرات نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ پرویز مشرف خوش تھے کہ وہ اب سکون سے اقتدار میں بغیر کسی سیاسی طاقت کے چیلنج کے رہ سکیں گے اور نون لیگ کے صدر حشاش بشاش تھے کہ جیل کی کال کوٹھڑی سے جان چھوٹی ۔ اس وقت بینظیر بھٹو کئی سال سے بیرون ملک خود ساختہ جلاوطنی میں تھیں۔ اس طرح دونوں بڑے سیاسی رہنما ملک سے باہر موجود تھے لہٰذا پرویز مشرف نے آئندہ کئی سال بڑے مزے سے حکومت کی۔ ملک میں وہ سیاسی طاقتیں موجود تھیں جو کسی نہ کسی طرح یا تو ان کی حمایتی تھیں یا شریک اقتدار۔ ان کے زوال میں تیزی اس وقت آئی جب محترمہ واپس پاکستان لوٹیں اور نوازشریف بھی کچھ ہفتوں بعد نومبر 2007ء میں آ گئے۔ اس کے بعد پرویز مشرف کا جانا یقینی ہو گیا، انہیں واقعی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اب جب پرویز مشرف اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے واپس پاکستان آئے تو ہیں کسی حد تک 2000ء والی صورتحال کا اعادہ ہونے جارہاہے۔ پرویز مشرف زیر حراست ہیں، نوازشریف آزاد ہیں اور زورشور سے انتخابی مہم اس امید پر چلا رہے ہیں کہ وہ آئندہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اگر وہ واقعی اقتدار میں آجاتے ہیں اور تیسری بار وزیراعظم بن جاتے ہیں تو پھر انہیں ملزم پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کرنا پڑے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے تک سابق صدر پاکستان میں موجود ہی نہ رہیں۔ پرویز مشرف کی طرح ان کی بھی دلی خواہش ہوسکتی ہے کہ وہ جتنی جلد ہو سکے ریٹائرڈ آرمی چیف سے جان اس طرح چھڑا لیں کہ وہ ملک میں موجود نہ رہیں کیونکہ پرویز مشرف کے موجود ہوتے ہوئے ان کیلئے کافی مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ مزید یہ کہ تقریباً وہی طاقتیں جنہوں نے پرویز مشرف کو مجبور کیا تھا کہ وہ نوازشریف کو ملک سے باہر جانے دیں نوازشریف کو بھی اس بات پر قائل کریں گی کہ وہ پرویز مشرف کو سیف ایگزٹ دیا جائے۔ ان ممالک میں کچھ اہم مسلمان ریاستیں برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں ۔ پرویز مشرف پاکستان آنے سے قبل بھی ان ممالک کے ذمہ داروں سے کچھ ضمانتیں لیکر ہی آئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان سے نوازشریف کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہو۔ اسی وجہ سے (ن) لیگ کے سربراہ پرویز مشرف کی وطن واپسی کے بعد کئی ہفتے تک ان کے بارے میں خاموش رہے۔ اس کے بعد بھی جو کچھ انہوں نے سابق صدر کے بارے میں کہا ہے وہ کوئی بہت زیادہ سخت نہیں ہے حالانکہ یقینا وہ اس ڈکٹیٹر کے لگائے گئے زخم ابھی تک نہیں بھولے ۔ ان میں ایک یہ بھی تھا کہ انہیں اپنے والد کے جنازے میں شرکت کیلئے بھی پاکستان نہیں آنے دیا گیا تھا اور انہیں 38دن تک کال کوٹھڑی میں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا جہاں روشنی تک نہ تھی۔ وہاں خوف کا عالم پیدا کیا گیا تھا جس کا مقصد ان کے اعصاب توڑنا تھا۔
پرویز مشرف جس شاہانہ سیکورٹی پروٹوکول کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں اور جس آرام و آسائش سے اپنے فارم ہاؤس میں زیر حراست ہیں،ایسا سلوک صرف ایک سابق آرمی چیف کیلئے ہی مخصوص ہو سکتا ہے ورنہ سیاسی رہنماؤں کی تو اتنی توہین کی جاتی ہے کہ جیسے وہ انسان ہی نہیں ہیں۔ ابھی تک جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کسی سیاسی جماعت کے ”انتقام “ کی وجہ سے نہیں بلکہ وجہ وہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات ہیں جو انہوں نے اپنے اقتدار کے زمانے میں کئے جن کی انہیں سزا مل رہی ہے اور سب کچھ عدالتوں کے حکم سے ہو رہا ہے۔ جہاں تک عبوری حکومت کا تعلق ہے اس نے تو عدالت عظمیٰ کو صاف بتا دیا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں کرے گی حالانکہ اس نے یہ موقف اپنا کرسپریم کورٹ کے31جولائی2009ء کے فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے جس میں پرویز مشرف کے3نومبر2007ء کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ آئین توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس حکومتی موقف پر تو عدالت ہی فیصلہ کرے گی مگر عبوری حکومت جو ”غیر جانبدار“ ہے کو چاہئے تھا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیتی اور یہ مشکل کام آئندہ حکومت پر نہ ڈالتی۔ اگر نوازشریف وزیراعظم بن جاتے ہیں اور پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بناتے ہیں تو ان پر یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ وہ انتقام لے رہے ہیں حالانکہ وہ یہ سب کچھ عدالتی حکم کے تحت کریں گے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ شاید یہ نوبت ہی نہ آئے اور پرویز مشرف کو پاکستان سے اس طرح لے جایا جائے جیسے مکھن سے بال  جیسے ریمنڈ ڈیوس اور جیسے رمزی یوسف کو یہاں سے نکال لیا گیا۔ بعد میں شور ہوتا رہے گا کہ سابق صدر کا ملک سے جانا غیر قانونی ہے اور عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی۔ اگر اپنی سرتوڑ کوشش کے باوجود سپریم کورٹ توقیر صادق اور حسین حقانی جیسے اہم ملزموں کو واپس پاکستان لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی صرف اس وجہ سے کہ سابق حکومت نے کھل کر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کی۔ اگر پرویز مشرف ملک سے چلے گئے تو انہیں واپس لانا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ اس میں کچھ بیرونی طاقتیں بھی ملوث ہوں گی۔ پہلے ہی سابق صدر کے وکلاء نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں سے نکالا جائے کیونکہ انہیں اپنی 95سالہ بیمار والدہ کو ملنے باہر جانا ہوتا ہے۔ اشارے واضح ہیں کہ پرویز مشرف کا ڈرامہ اختتام پذیر ہونے والا ہے۔ ویسے بھی یہ زیاہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ پاکستان آرمی چاہے کتنی بھی ” لا تعلق “ رہے سابق آرمی چیف کو اس طرح ایک لمبے عرصے تک عدالتوں میں گھسیٹا نہیں جا سکتا۔ اس سارے کھیل میں پرویز مشرف کی سیاسی پروفائل تو کسی طرح بھی بہتر نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی امکان ہے تو پھر انہوں نے جو بہادری واپس پاکستان لوٹ کر دکھائی ہے اس کا کیا فائدہ ۔ بلاشبہ وہ ملکی خزانے اور سیکورٹی اداروں پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ قومی خزانے سے ایک بڑی خطیر رقم ان کی حفاظت پر خرچ ہو رہی ہے کیونکہ انہیں دہشت گردوں سے سخت خطرات ہیں۔ جب تک وہ پاکستان میں موجود رہیں گے سیکورٹی اداروں کے لئے ایک بڑا مسئلہ بنا رہیں گے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ان کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں صرف ایم کیو ایم نے ہمدردی کے کچھ الفاظ ان کے بارے میں کہے ہیں۔ پرویزمشرف کا پاکستان کی سیاست میں کچھ مستقبل نہیں تاہم اگر آئین اورقانون کی بات کی جائے تو پرویز مشرف کا ٹرائل ہونا چاہئے اس میں دو آراء نہیں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں گرفتار ہونے والے پہلے سابق آرمی چیف بن کر وہ پہلے ہی عبرت کا نشان بن چکے ہیں ۔
تازہ ترین