• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسئلہ شہریت بل کا ہو یا امیت شاہ کی پارلیمنٹ میں بےہنگم الزام تراشیوں کا، اقوام کی سفارت کاری میں ادب و آداب یا دلجوئی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ بڑا بھائی تبھی بڑا کہلانے کا حقدار ہوتا ہے جب وہ جیب سے کچھ جھڑتا بھی ہے، یہ فن مودی کو تو چائے بیچنے کے باوجود نہیں آ سکا لیکن غار کی تپش جھیلنے والے شی کو خوب آیا ہے۔

وہ جہاں جاتا ہے نوٹوں کی بوری کھول دیتا ہے۔ فی زمانہ ووٹ (حمایتی) اس کو ملتے ہیں جو نوٹ خرچنے کا فن جانتا ہو۔ اگرچہ ان نوٹوں سے آٹے دال کا بھاؤ تو ہمیں ٹوٹا پورٹ 99سالہ لیز پر دینے والے لنکنز کی طرح دوسروں کو بھی مابعد ہی معلوم ہوگا مگر مجبوریاں انسان سے کیا کچھ نہیں کروا دیتی ہیں۔ اگر کسی کو شک ہے، وہ ہمارے ایرانی بھائیوں سے معلوم کرلے۔

مغرب کی معاشی پابندیوں نے جن کی معیشت کا کچومر نکال دیا ہے اور پھر وہ جن کو خدا اور دین و ایمان کا دشمن خیال کرتے تھے آج انہی کو گلے لگانے کے سوا کوئی راہ نہیں پا رہے ہیں لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ اس میں صدر شی جن پنگ کی شخصیت اور معاشی پالیسیوں کا بڑا رول ہے جو چن چن کر نہ صرف مجبوروں کی مجبوریاں دور کرنے کے لئے کوشاں ہیں بلکہ دشمن کے ہر دشمن کو اپنا دوست خیال کرتے ہیں۔

شمالی کوریا اور پاکستان جیسے اٹوٹ دوستوں کو تو صدر شی اگر گھڑے کی مچھلیاں نہیں تو جیب کے نگینے ضرور خیال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک کی انہوں نے اخلاقی و مادی ذمہ داری لگائی ہے کہ نیوٹرل جو پڑے ہیں، پیار محبت اور سی پیک جیسے منصوبوں کی چاشنی و چمک دکھا کر انہیں اپنے ساتھ ملاؤ بلکہ اپنے قریبی دوستوں کو بھی کہہ دو کہ آپ واضح کرو ہمارے ساتھ ہو یا غیر کے۔

ترجیح سوائے بھارت کے دیگر تمام سارک ممالک ہونے چاہئیں لیکن رسائی و کاوش تمام ایشیائی ممالک تک۔ صدر شی خود بھی نہ صرف سارک بلکہ سنٹرل ایشیا اور اس سے بھی آگے تک نظر رکھے ہوئے ہیں وہ گوادر کے رستے مڈل ایسٹ اور افریقہ بلکہ یورپ تک دو طرفہ مار کرنے کا داعیہ رکھتے ہیں۔

چینی صدر شی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر چین نے امریکہ کے بالمقابل عالمی سپر پاور بننا ہے تو سب سے پہلے نہ صرف یہ کہ اپنے خطے کے ممالک کو اپنا ہمنوا بنانا ہے بلکہ معاشی و عسکری طاقت بھی بننا ہے۔ وہ پورا ادراک رکھتے ہیں کہ ان کے راستے کی پہلی دیوار بھارت ہے اور آخری امریکہ، بھارت کے ساتھ وہ پیہم گاجر اور چھڑی والا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

اگر وہ بھارت کو ان ہر دو ہتھکنڈوں سے رام یا قابو نہ کر سکے تو نہ صرف یہ کہ ان کے سی پیک جیسے منصوبہ جات ہمہ وقت بھارتی توپوں کی زد میں رہیں گے بلکہ چین کے سپر پاور بننے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ آج اگر لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ چین ایئر بیسز کے علاوہ سڑکوں کے جال تعمیر کر رہا ہے تو کسر ہندوستان بھی نہیں چھوڑ رہا۔

اس کے باوجود صدر شی مطمئن ہیں کہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کا اصل مقابلہ بھارت سے نہیں، امریکہ سے ہے۔

اگر آج مودی سرکار شاداں ہے کہ فرانس سے ہمیر میزائل اور 60ہزار کروڑ کے 36رافیل جنگی طیاروں میں سے 5 بھارت پہنچ گئے ہیں تو ان کی 14لاکھ چوالیس ہزار فوج کے بالمقابل 21لاکھ 83ہزار نفوس پر مشتمل پیپلز لبریشن آرمی بھی پوری تیاری کے ساتھ سامنے موجود ہے۔ بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ اگر 71ارب ڈالر ہے تو چین کا 261ارب ڈالر۔

بھارت کے پاس پہلے سے 2123طیارے ہیں تو چین کے پاس 3210، چین کے ٹینک 3050اور بھارت کے 4292، چینی ہیلی کاپٹر 911انڈین 722، چینی آبدوزیں 74جبکہ انڈین 16، چینی بکتر بندگاڑیاں 40000اور انڈین 6686، چینی ایئر پورٹ 507اور انڈین 346، چین کے پاس جوہری بم 320ہیں تو بھارت کے پاس 150۔ سو معاشی کے ساتھ عسکری تفاوت صاف ظاہر ہے۔

قطعی واضح ہے کہ ان حالات میں بھارت تنہا چین کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یوں پاکستانی عسکری قیادت بھی یہ خیال کرنے لگی ہے کہ بدلے ہوئے زمینی حالات میں اگر کوئی طاقت اسے کشمیر دلوا سکتی ہے تو وہ محض اس کا آزمودہ دوست چین ہی ہے۔

اس لئے اس نے اپنے تمام انڈے بلا شرکت غیرے چینی مرغی کے نیچے یا ٹوکری کے اندر رکھ دیے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کے ایک طبقے کو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ صدر شی جب انڈین مرغی کی گردن دبوچیں گے تو ہمارا دیرینہ مسئلہ جو ستر برسوں میں کسی سے حل نہیں ہو سکا پکے ہوئے پھل کی طرح ہماری جھولی میں آن گرے گا، یہ تمامتر صورتحال محض تصویر کا ایک رخ ہے جو ہم نے پیش کیا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ اقوامِ عالم کی امامت کے رتبے پر فائز ہے۔

سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ جیسی ایک نئی کولڈ وار جس طرح شروع ہو چکی ہے۔ آنے والے ماہ و سال میں یہ شدت اختیار کرتے بلکہ گرم ہوتے دکھتی ہے چین جس طرح مختلف ہتھکنڈوں سے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے، امریکی قیادت اور سیکورٹی ذمہ داران بھی اسی مستعدی سے سرگرم عمل ہیں۔

امریکی انتخابات تو 3نومبر کو بروقت ہی ہوں گے سو ان حالات میں کسی حد تک بظاہر توقف محسوس ہو گا مگر امریکی پالیسی کا تسلسل ٹوٹنے نہیں پائے گا۔ اگر تفصیل میں جائیں تو اس وقت چین کے بالمقابل یورپ اور آسٹریلیا ہی امریکہ کے ساتھ کھڑے نہیں ہونگے بلکہ چین کے گرد موجود تمام امریکی اتحادی جاپان، جنوبی کوریا ویتنام، انڈونیشیا اور فلپائن جیسے خطے کے ممالک بھی چین کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیں گے۔

(جاری ہے)

تازہ ترین