• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں بسنے والوں کے درمیان جب فکری ،سیاسی اور سماجی رشتے کمزور پڑتے جاتے ہیں  تو قومی شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ سمجھ دار قومیں اِن رشتوں کی حفاظت کے لیے بڑے سائنٹفک انداز میں منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ پاکستان میں بلوچستان کا صوبہ سماجی طور پر شیر و شکر نہ ہو سکا ، کیونکہ ہمارے بیشتر حکمران اُسے نظر انداز کرتے اور اُس کی سیاسی  معاشی اور تعلیمی نشو و نما اور حقوق کی ادائیگی سے غافل رہے۔ وہاں 2008ء میں جو حکومت قائم ہوئی  اُسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی جس کی ناقص پالیسیوں کے باعث شورش بپا ہوئی اور بغاوت کی آوازیں بلند ہوتی گئیں۔ اِس تشویش ناک صورتِ حال کے ہمہ پہلو تجزیے کے لیے پائنا نے پنجاب یونیورسٹی کے تعاون سے جنوری 2013ء کے اوائل میں بلوچستان پر دو روزہ قومی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین مدعو کیے گئے۔کانفرنس میں سب سے اہم قرارداد یہ منظور ہوئی کہ قومی یک جہتی کے فروغ کے لیے سیاسی جماعتوں پر اعتماد کرنے کے علاوہ اُنہیں آزادی کے ساتھ رائے عامہ کی سیاسی تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں  کیونکہ اُنہی کے ذریعے عوام کو پائیدار اور مستحکم رشتوں میں منسلک رکھا جا سکتا ہے۔ مقررین اِس بنیادی نکتے کا بھی بار بار اعادہ کرتے رہے کہ وفاق پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی انتہائی پس ماندہ اکائی کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کو اوّلین اہمیت دے اور اعلیٰ بیوروکریسی میں بلوچستان کی نمائندگی کا بطورِ خاص اہتمام کیا جائے۔ اِس کانفرنس نے متفقہ طور پر بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے انتخابات میں حصہ لینے اور بڑے مقاصد کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی اپیل کی اور یہ مشورہ بھی دیا کہ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کی کلید اب کوئٹے کے ہاتھ میں ہے اور اِس صوبے کے اربابِ اختیار کو اپنے وسائل پر انحصار کرنا اور اُنہیں درست انداز میں بروئے کار لانا ہو گا۔اہلِ لاہور نے بلوچ بھائیوں کا والہانہ استقبال کیا اور یہ پُرعزم پیغام بھی دیا کہ اُن کی منصفانہ جدوجہد میں وہ اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
بلوچستان کانفرنس میں سبی سے نواب غوث بخش باروزئی بھی شریک ہوئے جنہوں نے لاہور کے دانش وروں کے سامنے اپنا دل کھول کے رکھ دیا۔ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف کی طرف سے مندوبین کو عشائیے کی دعوت دی گئی جہاں بہت کھل کر باتیں ہوئیں اور عہد و پیمان باندھے گئے کہ تمام قومیت پرست جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں گی اور پنجاب پہلے کی طرح بلوچستان کے عوام کی خدمت بجا لاتا اور اُنہیں دوسرے صوبوں کے برابر لانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ چند ماہ بعد جب نگران حکومتوں کا موسم آیا تو نواب غوث بخش باروزئی پر اُن کی شخصی وجاہت اور گہری بصیرت کی بدولت تمام جماعتوں کا اتفاق ہو گیا۔ اُنہوں نے منصب سنبھالتے ہی تمام سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کیں  وہ سردار اختر مینگل سے ملنے اُن کی اقامت گاہ پر گئے جو ساڑھے چار سالہ جلاوطنی ختم کرکے کوئٹہ پہنچے تھے۔ اِن ملاقاتوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا بڑی حد تک راستہ ہموار کیا ۔ دریں اثنا پاکستان الیکشن کمیشن نے بھی چند روز کوئٹے میں قیام کیا اور تمام سیاسی قائدین کو اِس امر کا یقین دلایا کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے اور عوام کو نسبتاً اچھے نمائندے چننے کا موقع ملے گا۔ صوبے کے اندر انتخابات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بہت موٴثر اور انتہائی خاموش کردار ادا کیا۔ بلوچستان میں قیام کے دوران اُنہوں نے تمام قومیت پرست جماعتوں کو یقین دلایا کہ اُنہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جائے گا  فوج اور اُس کے ادارے انتخابی عمل کا تقدس قائم رکھیں گے اور پُر امن انتقالِ اقتدار کی ضمانت دیں گے۔ وہ کئی ماہ سے بڑے تسلسل اور اعتماد کے ساتھ ایک ہی بات کہتے چلے آ رہے تھے کہ شفاف اور پُرامن انتخابات اُن کا ایک حسین خواب ہے جس کی تعبیر اُن کی زندگی کا ایک مقدس مشن ہے۔
نگران وزیر اعلیٰ جناب نواب باروزئی نے مجھے ایک وفد کے ہمراہ کوئٹہ آنے اور حالات کے بے لاگ تجزیے کی دعوت دی۔ اِس دعوت میں ایک خاص طرح کی ہیجان انگیزی بھی تھی اور خوف کا عنصر بھی چھپا ہوا تھا۔ میں نے اپنے صحافی دوستوں سے ذکر کیا تو وہ مہم جوئی کے لیے فوری طور پر آمادہ ہو گئے۔ اِس طرح ایڈیٹروں  دانش وروں اور کالم نگاروں کا 13رکنی قافلہ کوئٹہ روانہ ہوا جس میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے گریجوایٹ نوجوان بھی شامل تھے۔ جمعے کی سہ پہر ہم ایئر پورٹ پر اُترے  تو چند ساعتوں پہلے جناب نواز شریف سردار ثناء الله زہری سے تعزیت کر کے وی آئی پی لاوٴنج سے روانہ ہو چکے تھے۔ ہمارا کارواں سیکورٹی کے بغیر ہوٹل پہنچا جو زندگی کی دلفریبیوں اور جلوہ آرائیوں سے چھلک رہا تھا۔ سرگوشیاں بھی تھیں اور سرشاریاں بھی۔ بلوچستان کے معروف ایڈیٹر جناب انور ساجدی نے ہمارا خیر مقدم کیا۔ اُن کے ساتھ چند منٹ ہی باتیں ہو سکیں کہ پیغام آیا کہ ہوم سیکرٹری جناب اکبر درانی اور اُن کے ساتھی ہمیں انتخابات کے بارے میں بریفنگ دینے کے لیے منتظر ہیں۔ ہم نے موقع غنیمت جانتے ہوئے جناب ساجدی سے معذرت کی اور جلد آنے کا وعدہ کر کے وزیر اعلیٰ ہاوٴس پہنچ گئے۔ ہنستے اور مسکراتے چہرے ہمیں اپنے گردوپیش نظر آتے رہے۔ بریفنگ اِس قدر معلومات افزا اور تکلّفات سے بے پروا تھی کہ گھنٹوں پر پھیل گئی۔ ہم نے اُن سے پینترے بدل بدل کر چھٹے ہوئے سوال کیے جن کا وہ خندہ پیشانی سے جواب دیتے رہے۔
اُن کے ساتھ سیکرٹری اطلاعات  سیکرٹری خزانہ اور صوبائی الیکشن کمشنر بھی تشریف فرما تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہمیں بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے  کیونکہ بلوچستان میں سینکڑوں کی تعداد میں قبائلیوں کی شاخیں آباد ہیں اور اُن کے درمیان خانہ جنگی ہوتی رہتی ہے اور اب ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والے شورش پسند عناصر بعض علاقوں میں بہت سرگرم ہیں۔ اِن تمام باتوں کے باوجود ہمیں بیشتر سیاسی جماعتوں  فوج  ایف سی  پولیس اور لیویز کا تعاون حاصل ہے۔ تیس میں سے سات آٹھ اضلاع میں شورش زوروں پر ہے اور ہم اِس سے نمٹنے کے لیے فول پروف انتظامات کر رہے ہیں۔ 25اپریل سے فوج ڈیپلائے کر دی جائے گی اور ایک ایسی فورس تیار کی جا رہی ہے جو برق رفتاری سے ہر مشکل مقام تک پہنچ جائے گی۔ اُنہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا کہ انتخابات بروقت اور شفاف ہوں گے  کیونکہ وہ قومی سلامتی اور صوبے میں نمائندہ حکومت کے قیام کیلئے ازبس ضروری ہیں  اِس لیے ہمیں ہرطرح کے جھٹکے برداشت کرنے کیلئے چوکس اور مستعد رہنا چاہیے۔ وہ اِس بات پر بڑے مطمئن تھے کہ سردار اختر مینگل انتخابات میں حصہ لینے کیلئے وطن واپس آگئے ہیں اور بلوچ نوجوانوں کو پہاڑوں سے اُترنے کا مشورہ دے رہے ہیں جبکہ اُن کا بھائی جاوید مینگل بغاوت پر تُلا ہوا ہے۔ اُس کی تنظیم نے سردار ثناء الله زہری کے قافلے پر قاتلانہ حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ اِس کے بعد سردار صاحب نے اپنے ماموں کے علاوہ اختر مینگل  عطاء الله مینگل اور نواب خیر بخش مری کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی ہے جس کے سنگین سیاسی اثرات پیدا ہو سکتے ہیں  مگر ہمیں ایسے واقعات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے  کیونکہ شرپسند عناصر فوج کی ڈیپلائے منٹ سے پہلے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور عوام کے اندر خوف و ہراس پھیلانا چاہیں گے۔ اُنہیں یقین تھا کہ قوم نے انتخابات کا پُل صراط عبور کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور وہ انشاء الله اِس معرکے میں پوری طرح سرخرو ہو گی  کیونکہ قومی سلامتی کے تمام ادارے  تمام خفیہ ایجنسیاں اور تمام سول ادارے اِس کی پشت پر کھڑے ہیں۔اِسی رات ہمیں سیاست دانوں سے فکر انگیز گفتگو کرنے کا موقع ملا اور اگلے دن ہم نے آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید الله خاں اور جنوبی کمان کے اعلیٰ افسروں سے بریفنگ لی جو ہوشربا ہونے کے علاوہ چشم کشا بھی تھی جن میں قومی وحدت کو مستحکم رکھنے والے رشتوں کو فروغ دینے کا عزم چھلک رہا تھا۔
تازہ ترین