• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں حالیہ برسوں کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے لرزا دینے والے واقعات میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ سے ہوتا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی 6ماہ میں ملک بھر میں یومیہ 8سے زائد بچوں کو انسان کی شکل میں درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، یہ اوسط تعداد سالانہ کے حساب سے 2920بنتی ہے۔ یہ شرمناک صورتحال اس وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ دو تین برسوں میں منظر عام پر آنے والے واقعات پر معاشرے میں بہت لے دے ہوئی، ان کی روک تھام کیلئے قانون سازی بھی ہوئی، سزا بھی ملی لیکن صورتحال پھر بھی جوں کی توں ہے، ایسا کیونکر ہے، یہ قانون پر عملدرآمد کرنے والے اداروں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے سب سے زیادہ اعداد و شمار ان چھ ماہ میں پنجاب میں سامنے آئے جس کی رو سے صوبے میں 497بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا 227سے زیادتی کی کوشش کی گئی 173کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا 331کو اغواء اور 38کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اور یہ وہ واقعات ہیں جو منظر عام پر آ گئے ورنہ دھونس اور اثرورسوخ کی بنیاد پر بیشتر معاملات کو دبا دیا جاتا ہے جن کی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی۔ دوسری طرف جنسی ہراسگی اور عصمت دری کے واقعات میں پاکستان پہلے ہی دس بدترین حالات سے دوچار ملکوں میں شامل ہے خصوصاً لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر تین روز قبل خاتون کےساتھ ہونے والی زیادتی کے مبینہ واقعہ کے بعد یہ خبر جس طرح دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اس سے وطنِ عزیز کا تشخص کہاں تک متاثر ہو سکتا ہے کسی بھی ذی شعور کیلئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اس ضمن میں مروجہ قوانین اور ان پر عملدرآمد کے حوالے سے نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین