• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے لوگو جو ایمان لائے ہو نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو۔ اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔ (القرآن۔ سورۃ الحجرات۔ آیت 11)

………………

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں زندگی پُرسکون اور منظم گزارنے کے لئے کیسی بنیادی ہدایات دی جارہی ہیں مگر اس وقت اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کا تمدن عروج پر ہے۔ تضحیک بہت ہی منظم انداز میں کی جارہی ہے۔ اب ہر ایک کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ، یہ سب منظم تضحیک کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔ ہر اقدام، ہر شعبے، ہر سیاسی پارٹی، ہر لسانی طبقہ، ہر نسلی گروہ، ہر کاروبار کے بارے میں منفی سوچ پھیلائی جاتی ہے۔ آوازے کسے جاتے ہیں۔ جملے بازی کا شوق پورا کیا جاتا ہے۔ پیروڈی کی صفت شباب پر ہے۔

یہ سنکی پن، یہ کلبیت، نک چڑھا پن، شاید انگریزی میں Cynicismاس کا مناسب مترادف ہو۔ یہ رویہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان لیکن سائنسی ایجادات، جمہوریت اور کائنات کی تسخیر، چاند پر انسانی قدم پڑنے کے بعد مہذب ملکوں میں یہ منفی رویے کافی حد تک کم ہو چکے ہیں۔ وہاں معروضی اور مثبت تنقید کا غلبہ ہے۔ ہمارے ہاں بدگمانی ایک قومی عادت بن چکی ہے۔ صبح جب پارک میں سیر کے لئے جاتے ہیں وہاں یہی طعن و تشنیع سننے کو ملتی ہے۔ پھر اخبار کے کالموں میں تشکیک، تضحیک بھری تحریریں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں یہی اندازِ گفتگو۔ اینکر پرسن بھی منہ بنا بنا کر ایسا مذاق اڑانے میں کامیابی سمجھتے ہیں۔ ان شوز میں حصّہ لینے والے معزز سیاستدان بھی شکوک و شبہات میں اضافہ کرتے ہیں۔ پوری قوم شکی مزاج بن چکی ہے۔

یقیناً گزشتہ 73برس میں ایسے سانحے ہوئے ہیں۔ عدالتوں نے ایسے فیصلے کئے ہیں۔ سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے ایسے احکامات جاری کئے ہیں۔ جن سے قوم کو سخت مایوسی ہوئی ہے۔ بےبسی کا احساس بڑھا ہے۔ مظلوم عوام نے ہر آنے والے حکمراں سے بہت توقعات باندھی ہیں لیکن اس میں سے 80فیصد بھی جب پوری نہیں ہوئی ہیں تو بےکسی کا تاثر ناگزیر ہوگیا۔ اب ہر گفتگو اور بحث کے بعد یہ جملہ سننے میں آتا ہے۔

’’ کون سنتا ہے جی یہاں‘‘

’’ کچھ نہیں ہوگا یہاں‘‘

میں جب بھی کوئی عملی تجاویز دیتا ہوں تو بہت سے پڑھے لکھے، سنجیدہ احباب بھی یہی تبصرہ کرتے ہیں۔ ’’ شام صاحب! کیوں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔ یہاں کچھ نہیں ہونا ہوانا۔ بھینس کے آگے بین بجانے سے کوئی فائدہ نہیں‘‘۔

ایک تو یہ ناامیدی، دوسری طرف حکمرانوں، سیاستدانوں، علماء، سرکاری افسروں کا خاکہ اڑانا بھی افضل جہاد سمجھ لیا گیا ہے۔ کہیں کسی کی تدفین ہو، شادی ہو یا ویسے کوئی اجتماع، آپ کسی سرکاری ادارے کے بارے میں بات شروع کردیں تو ہر ایک کے پاس سینکڑوں منفی تجربے ہوں گے۔ جو وہاں کچھ مرچ مسالے کے ساتھ بیان کردیے جاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں بھی حکمرانوں سیاستدانوں اور میڈیا کے بارے میں طعن و تشنیع کا رواج ہے۔ ہمارے ہاں اس میں علماء کو بھی ہدف بنالیا جاتا ہے۔ لندن اسکول آف اکنامکس نے اس سلسلے میں ایک ملک گیر تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ Cynicism جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ وہ تو ان رویوں پر ریسرچ کے بعد Cyndexمرتب کررہے ہیں جس میں طعن و تشنیع کی فہرست مرتب کی جائے گی کہ لوگوں کے رویے کیا کیا ہیں۔ کن کن شعبوں کی تضحیک زیادہ ہورہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی یقیناً اس سلسلے میں کوئی تحقیق ہو رہی ہوگی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کسی نہ کسی یونیورسٹی سے کچھ علاقوں میں اس مایوسی، قنوطیت پسندی اور مضحکہ خیزی پر معلومات اکٹھی کی ہوں گی۔

میں ان رویوں پر اس لئے تشویش میں مبتلا ہوں کہ یہ معاشرے کا تاروپود بکھیر رہے ہیں۔ آگے نہیں بڑھنے دے رہے ہیں۔ بیزاری کی یہ کیفیت بہت سے سنہرے مواقع گنوا دیتی ہے۔ یہ نفسیاتی خود فریبی ہے۔ عمران خان ہوں، فوج ہو، نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری آپ ان کا مذاق اڑاکر، ان کے خلاف دور دور کی کوڑیاں لاکر، انہیں برے القاب دے کر اپنی جگہ مطمئن ہو جاتے ہیں کہ آپ نے حق گوئی و بےباکی کا مظاہرہ کردیا ہے۔ آپ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر مطمئن ہوجاتے ہیں مگر معاملات تو وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ اگر ان سب میں کوئی برائی ہے تو عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ یہ لوگ اور ادارے دبائو میں آئیں۔ انگریزی اصطلاح میں آپ کا کتھارسس ہوجاتا ہے مگر پرنالہ وہیں رہتا ہے۔ سازشوں کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں۔ بعض لیڈروں شخصیتوں کے جعلی خطوط لکھ کر پھیلائے جاتے ہیں۔ لوگوں میں بھی یہ عادت ہے کہ وہ شکوک و شبہات کو زیادہ قبول کرتے ہیں۔ حقائق اور اعداد و شُمار کو کم جانتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی اس میں پیش پیش ہے۔ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا، رپورٹ طلب کرلی، سب جعلی باتیں، ایک اور مضحکہ خیز جملہ استعمال ہوتا ہے۔ اپوزیشن نے بجٹ مسترد کردیا۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عوام نے مسترد کردیا۔ ان کو مسترد کرنے کا قانونی اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لیے بجٹ، قیمتوں میں اضافہ چلتا رہتا ہے۔

اس شکی مزاجی، تضحیک، بدگمانی سے نئی نسل میں مایوسی اور قنوطیت بڑھ رہی ہے۔ یہ احساس غالب ہو رہا ہے کہ اس ملک میں بہتری آہی نہیں سکتی۔ یہ بنیادی طور پر غلط تاثر ہے۔ حکمرانوں نے ضرور مایوس کیا ہے لیکن اپنے طور پر بہت سے افراد اور ادارے معاشرے کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ ان کی کامیابیوں، کامرانیوں کی تفصیلات عوام کے سامنے لاکر شکوک و شبہات اور بدگمانی کو کم کرنا میڈیا کی قومی ذمہ داری ہے۔ مسائل طعن و تشنیع سے نہیں، معروضی تنقید سے حل ہوتے ہیں۔

تازہ ترین