• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جگتو فرنٹ سے لیکر اے آر ڈی تک جو 16اتحاد بنے،مرنجاں مرنج نوابزادہ کےسر ان کا سہرا رہا، مرحوم اگرچہ تاحیات فعال رہے لیکن جب اے آر ڈی کے پلیٹ فارم تلے سیاستدان جمع ہورہے تھے تو مرحوم نے اسے زندگی کا آخری اتحاد قرار دیا،تاہم بہت جلد وہ یہ کہتے ہوئے پائے گئےکہ اتحادی ایک دوسرے سے دھوکہ دہی کی وارداتیں کررہے ہیں۔ اُنہیں معلوم نہ تھا کہ 2018کے انتخابات کے بعد ایک ایسا اتحاد بھی آسمانِ سیاست پر جلوہ افروز ہو گا کہ جو سیاسی تاریخ کا حصہ بننے والے دودرجن اتحادوں سے بھی زیادہ موقع پرست ثابت ہوگا۔ موجودہ اتحاد کو اگرچہ یہ بھی اعزاز حاصل ہےکہ اس میں تقریباًوہ تمام جماعتیں شامل ہیں جو رموز سیاست کا بے بدل تجربہ رکھتی ہیں،لیکن اس اتحاد میں عیاں مگر یہ ہواکہ ان کے تمام تجربوں کا نچوڑ محض اقتدار تک رسائی ہے اور اس کیلئے اُس قوت کی خوشنودی کا حصول ہےجس کےمتعلق ہی گویا غالب نے کہا تھا:

نینداسکی ہے ،دماغ اس کا ہے،راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کےبازو پر پریشاں ہوگئیں

دونوں بڑی جماعتیں دغابازی میں پہل کرنے کی ایک دوسرےپر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے مواقع کی جستجومیں رہتی ہیں۔دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اب تک بننے والے اتحادوں اور ان کے ذریعے برپا تاریخ ساز تحریکوں کے نتائج اگرچہ اکثرمطلوبہ برآمد نہ ہوسکےلیکن 1983کی ایم آرڈی کی تحریک تک ان تمام اتحادوں میں سول بالادستی کا بنیادی نکتہ شامل رہا،موجودہ اتحاد اس بنا پر بھی انوکھا ہے کہ اسے متعدد بار ملکی سمت کودرست ڈگرپرلانے کےیکے بعد دیگرے مواقع ملے،جو ابن الوقتی کی نذر ہوگئے۔آج خواجہ آصف صاحب جیسےجہاندیدہ سیاستدان کو اگرایک نو خیز وزیر مراد سعید چپ کرادیتا ہے تو وجہ اسکی یہی ہے کہ ان بڑی جماعتوں کی خود غرضی ہی نے ایسے لوگوں کو دستارپہننے کا راستہ دیا جو اسکےاہل نہ تھے۔کون نہیں جانتاکہ وزیراعظم نواز شریف کی برطرفی اور انتخابات کے موقع پر اگر سول بالادستی کیلئے ایک اتحاد سامنے آتاتوآج ’’تابع فرمانوں‘‘ کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔لیکن یہ کوئی اور نہیں اس اتحاد میں شامل جماعتیں ہی تھیں جنہوں نے اپنےاپنےحصے کی ہوس میں مسلم لیگ ن کو آخری دھکا دینےمیں ذرہ برابر دیر نہ لگائی۔پھر اس طرح عہدو پیماں کئے کہ جنہیں وفاکرنے کیلئے نہ صرف پیپلز پارٹی نے ایک ووٹ والے جناب صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنایا بلکہ تحریک عدم اعتمادوالےدن سینٹ کے دروبام نے بے شرمی کا وہ منظردیکھاجس میں نام نہاد داعیانِ جمہوریت بے لباس کھڑے نظر آئے ۔پارلیمنٹ میں مختلف ترامیم سے لیکر اندرون خانہ ڈیل وڈھیل کےسودے میں کیا کیا اصول نہ تھےجو بڑی جماعتوں نے نیلام نہ کئے۔جہاں تک مولانافضل الرحمٰن کی بات ہے تووہ کردار تو اپنے تئیں نوابزادہ نصراللہ خان والا اداکرنے کیلئے کوشاں ہیں، لیکن اتحاد میں شامل جماعتیں اُنہیں وہ فری ہینڈ دینے کیلئے تیارنہیں،جو نوابزادہ صاحب کو ملتا تھا، وجہ اسکی یہ بھی ہے کہ نوابزادہ صاحب اپنی ذات میں انجمن توتھے لیکن اُن کی تانگہ جماعت پارلیمان میں کسی اتحادی جماعت کیلئے درد سر نہیں بن سکتی تھی۔مزید یہ کہ کارکنوں کے قحط کےسبب وہ کسی تحریک کو ہائی جیک کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔ مولانا صاحب سے ان دونوں حوالوں سے اتحادی جماعتیں خائف ہیں۔پیپلزپارٹی اور اے این پی کی طرح نہ سہی لیکن ایک حد تک مسلم لیگ بھی یہ سمجھتی ہے کہ مولانا صاحب کے نظریات اور مدرسوں کے طالب علموں کی صورت ایک موثرفوج کی بدولت ایسی کسی تحریک کی صورت ملنے والے اقتدارمیں وہ حلق کی ہڈی بن سکتےہیں۔ آپ کو یاد ہوگاکہ ایم ایم اے کے دورحکومت میں قاضی حسین احمد صاحب نے یہ تاریخی جملہ کہاتھا ’’جے یوآئی وہ ہڈی ہےجسے نہ نگل سکتےہیں نہ اُگل سکتےہیں ‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ جس اتحاد میں اس قدر بےاعتباری ہو وہ کیونکرنتیجہ خیزہوسکتا ہے۔ دوسری طرف اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان مہر وماہ بھی کسی روشنی کی بجائے چارسو تاریکیاں عام کئے ہوئے ہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ایسا تاثرعام ہے کہ عوام کے سامنے مستقبل کا کوئی نقشہ واضح نہیں۔عوام سے لیکر اعلیٰ عدالتوں تک تمام اصحاب الرائے بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک میں کسی نظام کا کوئی وجود نہیں۔ ایک حوصلہ افزااور خوش آئند سچ مگریہ بھی ہے کہ ملک بھرمیں بیداری کی ایک خود رو تحریک جنم لے چکی ہے، سوشل میڈیا کی ان گنت برائیاں اپنی جگہ، لیکن کسی ظلم کیخلاف ملکی عوام کو یک زبان بنانےمیںاس کا کردار آئے روز توانا ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے عالم میں پی پی اور مسلم لیگ کو سوچنا چاہئےکہ اُن کی موقع پرستی کا مرض جمہوریت کے ساتھ اُن کیلئے بھی نقصان دہ ہوگا۔

تازہ ترین