ہمیں پروا نہیں کہ زمین کا درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے، قطبین کی برف تیزی سے پگھلنے سے سمندر کا تلاطم خشکی کو نگل رہا ہے، آنے والی چند دہائیوں میں پینے کے پانی کا مسئلہ عالمگیر سطح پر شدید تر ہو جائے گا یا یہ کہ موسموں اور ماحولیات کی تبدیلی سے کس طرح انسان اور دیگر زمینی حیات متاثر ہوگی، ہمیں کوئی غرض نہیں کہ اس کائنات کی پیدائش و فنا کی کوئی علمی توجیہات تلاش کریں یا ایسا کونسا کلیہ ہے جسے بروئے کار لا کر ہم خود کو دوسری اقوام سے ممتاز یا ان کے برابر مقام پر لا سکیں اور خود پر لگے مختلف طرح کے منفی لیبل سے جان چھڑا سکیں۔ لیکن ہمیں تو نہ آسمانوں کی تسخیر کی جستجو ہے نہ سمندر کھنگالنے کا جنوں، کبھی ہمارے قومی جذبات آپے سے باہر ہو جاتے ہیں تو کبھی ہم کسی مذہبی معاملے میں آناً فاناً بھڑک اٹھتے ہیں، گھیرائو جلائو، مرو مارو، ہر طرف ہائو ہو، ایک عجیب طرح کی افراتفری ہماری زندگیوں میں سرایت کر چکی ہے۔
اب ایک اور مسئلہ جو پاکستان سے باہر امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی ملکوں میں رہنے والوں کیلئے آئے روز وجہ نزاع بنا رہتا ہے وہ یہ کہ مسلمان عورت کا جسم یا چہرہ ڈھکنے کا اسلامی حکم کیا ہےاور پردہ چہرے کا ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں بھانت بھانت کی بولیاں، قسم قسم کی حکایتیں۔ مولویوں، مشائخ اور مفتیوں کی طرف سے ’’ہمچوما دیگرے نیست‘‘ قسم کے بیانات کہ الامان الحفیظ، مرد حیران اور عورت پریشان کہ آخر کونسا پردہ ایسا ہے جو کہ ’اسلام‘ کے عین مطابق ہے!! عرصہ ہوا میں نے اپنے ایک کالم میں آسٹریلیا کے ایک امام مسجد کا ذکر کیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ’’برقعے یا پردے کے بغیر عورت کھلے عام رکھے گئے گوشت کے تھال کی طرح ہے جس میں کوئی بھی ’بلی‘ آ کر منہ مار سکتی ہے، ایسی عورت کے ساتھ اگر ریپ ہو جائے تو قصور عورت کا ہو گا مرد کا نہیں‘‘۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں قائم ’’کریمیہ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے پی ایچ ڈی امام ڈاکٹر مشرف حسین ’او بی ای‘ نے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں واضح طور پر کہا کہ ’’شریعت اسلامیہ میں عورت کے نقاب کا کہیں ذکر نہیں ہے لہٰذا چہرہ ڈھانپنا غیرشرعی ہے‘‘۔ اگر ڈاکٹر مشرف حسین جو غالباً پروفیسر اور عالمِ دین بھی ہیں، پوری ذمہ داری سے کہیں کہ شریعت میں نقاب کا ذکر ہی کہیں نہیں آیا، ہاں سورۃ نور اور سورۃ احزاب میں پردے کا ذکر ہے جو اس طرح ہے کہ ’’مسلمان عورتیں اپنے سروں اور سینوں کو ڈھانپ کر رکھیں‘‘ ڈاکٹر مشرف نے یہ بھی کہا کہ مدارس اور اہلِ علم مسلمانوں کے مابین ’کھلے پن‘ کی ضرورت ہے کیونکہ مدارس ایک محدود ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اب اگر اسلامی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی و تمدنی تاریخ پر بھی نگاہ ڈالی جائے اور ماضی میں زیادہ دور نہ بھی جایا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پردے کا رواج اونچے اور درمیانے درجے کی عورتوں میں تھا جبکہ دیہات اور نچلے طبقہ کی عورتوں میں پردہ کبھی مقبول نہیں رہا۔ ابھی کل کی بات ہے پاکستان میں ٹوپی والے برقعے (شٹل کاک) عام استعمال ہوتے تھے، اندازہ کریں اس برقعے نے آج کل کے برائے نام دوپٹے تک کا سفر کس تیزی سے کیا ہے جو کہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ترجیحات کو بدلنے کی زندہ مثال ہے۔ ہمارے ہاں تو معیشت ہو، معاشرت ہو، اخلاقیات ہوں، ختنوں سے لے کر شادی، عام رسوم و رواج یا سیاسی و مذہبی ڈیوٹیاں ہوں ہر معاملے میں، ہر طریقہ کار میں ایک عجیب سی کھچڑی سی پکی ہوئی ہے، اپنی اپنی راگنی اور ہر کوئی بول رہا ہے، مسلمان عورت کا پردہ کیا اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اسے ساری دنیا میں متنازع کر دیا جائے۔ ہمیں اس حقیقت پر بھی گفتگو اور ایک کھلا ڈائیلاگ کرنا ہوگا ۔ عورت کے درست اسلامی پردے اور نقاب کی ضرورت پر بھی کھلے سوال و جواب کی ضرورت انتہائی اہم ہے۔ ہم نے بعض معصومانہ عبادات کو زندگی کا اول و آخر حاصل تو سمجھ رکھا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کی نئی حقیقتیں ہم سے نئی تشریحوں کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کیا ہم رمضان و عیدین کے تعین اور خواتین کے پردے جیسے معاملات پر بھی کوئی ایک متفقہ رائے یا کوئی حد متعین کرکے خاص طور پر ہم جیسے اوورسیز پاکستانیوں یا مسلمانوں پر ایک احسانِ عظیم نہیں کر سکتے تاکہ ہم دیگر مذاہب اور قومیت کے لوگوں کی باتیں نہ سنیں۔ ورنہ گول مول حکایتیں بیان کرنے سے ہمارا کوئی ایک رخ متعین نہیں ہو سکے گا جیسا کہ آج کل برطانیہ میں نقاب دھڑا دھڑ فروخت ہو رہے ہیں، جن لڑکیوں کی مائوں نے کبھی حجاب یا اسکارف و نقاب نہیں کیا وہ اسے فیشن کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ اِس ردِ عمل سےخطرہ یہ بھی ہے کہ اگر ایسی صورتحال رہی تو برطانیہ میں بھی فرانس اور ہالینڈ جیسا قانون نافذ ہو سکتا ہے جہاں نقاب و حجاب پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔