• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اربابِ مدرس اور حکومت کے درمیان کئی غلط فہمیاں اور دوریاں ہیں۔ شدت پسندی کے خاتمے اور قیامِ امن کے لئے یہ غلط فہمیاں دور کرنا ناگزیر ہے۔ اس کا ایک طریقہ آپس میں مل بیٹھنا بھی ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود نے اپنی ٹیم کے ہمراہ پاکستان کے معروف تعلیمی ادارے کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو درپیش گمبھیر مسائل کا اصل حل درست نظامِ تعلیم ہی ہے جبکہ پاکستان میں تعلیمی نظام کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ہم سب کو مل کر دینی و دنیوی تعلیم کو یکجا کرنے کی سعی کرنا ہوگی۔ جہاں دینی و دنیوی علوم اکٹھے نہیں پڑھائے جارہے ، وہاںانہیں اکٹھا کرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان میں نظام و نصاب تعلیم ایک ہونا چاہئے۔ نوجوانوں کو دینی و عصری تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا بہترین قومی خدمت ہے۔ مدرسوں کو یونیورسٹیوں میں اور یونیورسٹیوں کو مدرسوں میں ضم کردیا جائے تو کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ایک عرصے تک ہر قسم کے علوم و فنون کی تعلیم ایک ہی درسگاہ میں ہوتی تھی۔ دینی علوم اور دنیاوی فنون میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ان تعلیمی اداروں سے ابوریحان البیرونی اور اُن جیسے بے شمار دوسرے عظیم فلاسفر، حکما اور سائنسدان پیدا ہوئے تو وہ علمِ حدیث، علمِ تفسیر، عربی زبان، فقہ اور اُصولِ فقہ کا بھی وافر علم رکھتے تھے۔ اُس زمانے کے مسلمانوں میں عظیم فلاسفر، سائنسدان، جغرافیہ، ریاضی، علم ہیئت اور فلکیات کے ماہرین بھی تھے جو دینی علوم بھی جانتے تھے۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے دور میں نظامِ تعلیم وہی چل رہا تھا۔ یہاں کی سرکاری زبان فارسی تھی، اُس زمانے کی سائنس اور دوسرے جدید دنیاوی علوم و فنون ہندوستان کے تمام مدارس میں رائج تھے۔ اُس وقت کے علماء ان تمام مضامین انجینئرنگ، علم الہندسہ، حساب، الجبرا، جیومیٹری، علم ہیئت ، فلکیات، جغرافیہ اور طب کو اپنے دینی مدارس میں پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ جب انگریز تاجروں کے روپ میں برصغیر آیا تو اس نے مختلف حیلے بہانوں سے ہندوستان کی زمینوں پر قبضے کرنا شروع کردیے۔ برصغیر پر قابض ہو گئے تو ایسی تدبیریں شروع کیں جس سے مسلمان اپنے دین کو فراموش کرکے ایک غلام قوم کے طور پر اُن کے تابع ہو جائیں۔ انگریزوں کو ہندوئوں سے کوئی خاص خطرہ نہیں تھا۔ انہیں سب سے بڑا خطرہ مسلمانوں سے تھا، کیونکہ یہ انگریز حکومت کو دل سے قبول کرنے والی قوم نہ تھی۔ مسلمانوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے برصغیر کے تعلیمی اداروں کو بےاثر کردینا اس کی سیاسی ضرورت تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ ہندوستان کے سرکاری دفاتر سے فارسی زبان ختم کرکے انگریزی زبان مسلط کردی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس ملک کے باشندے سرکاری دفاتر میں پہنچتے تو وہ سرکار کی نظروں میں اَن پڑھ تھے۔ چاہے وہ کتنے ہی اونچے درجے کے تعلیم یافتہ ہوں مگر انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے سرکاری اداروں میں وہ جاہل قرار دیدیے گئے۔ ان حالات میں اس بات کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں تمام اسلامی علوم کی وہ میراث جو مدارس کے ذریعے صدیوں سے محفوظ چلی آرہی تھی وہ ہمارے ہاتھوں سے نہ جاتی رہے۔ اس وقت علماء نے مختلف دارالعلوم کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے سوچا ہم کم ازکم اسلامی علوم کو اور اسلامی اقتدار کے زمانے میں علم و حکمت کے جو دُوسرے شعبے الجبرا، جیومیٹری، علم ہیئت، فلکیات، جغرافیہ، منطق، فلسفہ، عربی شعر و ادب اور طب وغیرہ ان سب کو تو محفوظ کر ہی لیں۔ عین اُسی زمانے میں سرسیّد احمد خان نے علی گڑھ میں تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ مسلمانوں کو سرکاری اداروں میں ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں اور ہندو خوب ملازمتیں حاصل کررہے ہیں،جس سے مسلمانوں کی معاشی و سیاسی موت واقع ہو جانے کا اندیشہ ہے، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی سیاست و معیشت کے تحفظ کیلئے علی گڑھ کا ادارہ قائم کیا، تاکہ وہاں انگریزوں کے لائے ہوئے نصابِ تعلیم کو رائج کرکے کم از کم مسلمانوں کی سیاست اور معیشت تو محفوظ کردی جائے۔ دینی مدارس کا مشن تھا مسلمانوں کے دِین کا تحفظ اور علی گڑھ کے اس تعلیمی ادارے کا مقصد تھا مسلمانوں کی دنیا کا تحفظ، دونوں کی نیتیں اپنی اپنی جگہ ٹھیک تھیں لیکن مشکل یہ ہوئی کہ پہلے یہ دونوں کام ایک ہی قسم کے تعلیمی اداروں میں ہوا کرتے تھے، اب یہ کام تقسیم ہوگئے۔ دین اور دنیا میں تفریق ہوئی۔ تعلیم کے دونوں نظاموں میں خلیج پیدا ہوگئی۔ اپنے اپنے مقصد میں دونوں ادارے کامیاب ہوئے۔ پورے ملک کے نظامِ تعلیم کے طور پر نہ علی گڑھ کا نظامِ تعلیم کافی تھا نہ ہی مدارس کا نظامِ تعلیم۔ یہ دونوں ایسے نظام نہیں تھے کہ ان میں سے کسی ایک کو جوں کا توں پاکستان کے سب تعلیمی اداروں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاری کردیا جائے۔ ان حضرات کا نظریہ یہ تھا کہ پاکستان میں ایسے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے جس میں دین و دنیا کی تفریق نہ ہو۔ ایک خاص مرحلے تک مشترک نصابِ تعلیم چلے۔

تازہ ترین