• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کو 69برس بیت گئے، مگر جنت نظیر کہلانے والی وادی میں اپنا حق خودارادیت مانگنے والے کشمیری عوام پر نہ صرف ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں بلکہ قابض بھارتی فوجیوں کی وحشیانہ کارروائیوں کو اسپیشل پاور ایکٹ جیسے قوانین کے ذریعے جائز بھی قرار دیا جارہا ہے۔ منگل 12؍ اپریل کو ہندواڑہ میں بھارتی فوجی کے ہاتھوں کشمیری طالبہ کی عصمت دری کے واقعہ کے بعد قابض فورسز نے صدائے احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں دو طالب علموں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا جس پر بدھ 13؍ اپریل کو بھی کئی علاقوں میں شدید احتجاج کیا گیا ۔کپواڑہ میں پولیس اور فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک اور نوجوان شہید ہوگیا۔ منگل کے روز کی فائرنگ سے زخمی ہونے والی 70سالہ خاتون بھی چل بسی۔ اس طرح دو روز میں مرنے والوں کی تعداد چار ہوگئ جبکہ ہندواڑہ اور کپواڑہ میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ شہیدہونے والے 3کشمیریوں کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور بھارت کیخلاف اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ بھارتی فوجیوں کے انسانیت سوز مظالم کے نتیجے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہداءکے قبرستانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ گمنام قبروں کی تعداد بعض حلقوں کے اندازے کے مطابق 12ہزار سے زیادہ ہے اور بہت سے کشمیریوں کے خیال میں لاتعداد شہدا ٔایسے ہیں جن کا سراغ بے نام اور پوشیدہ اجتماعی قبروں کی صورت میں گم کردیا گیا ہے مگر کشمیری عوام کی وہ پرعزم تحریک دبائی نہیں جاسکی جس کا مظاہرہ ہر سال پاکستان کے یوم آزادی (14؍ اگست) پر کشمیری عوام سبز ہلالی پرچم لہرا کر اور ’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعروں کی صورت میں اور اس کے اگلے روز 15 ؍اگست کو بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منا کر کرتے ہیں۔ کشمیری عوام برصغیر کی تقسیم سے قبل ہی پاکستان سے وابستگی کے جذبے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ 3؍جون 1947ء کے تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل ہونے تھے۔ مگر بھارت نے قیام پاکستان کے فوراً بعد کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست میں فوجیں اتار کر اور ڈوگرہ مہاراجہ کو بھارت سے الحاق پر مجبور کرکے جو کچھ کیا ، اس کے نتیجے میں پورے جنوبی ایشیا کا امن مسلسل خطرے سے دوچار ہے۔1948ء میں بھارتی جارحیت کیخلاف ریاستی مسلمانوں کی زبردست مزاحمت سے خوفزدہ ہوکر معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے اور پھر عالمی دبائو پر کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنیکا حق دینے کا وعدہ کرنے والی نئی دہلی کی حکومت کی قلابازیوں نے خطے کو کئی بار جنگ سے دوچار کیا اور ہتھیاروں کی دوڑ کے ذریعے پاکستان کو اپنی بقاء و سلامتی کیلئے قومی وسائل کا ایک حصہ توازن طاقت اور قابل اعتبار ڈیٹرنس کیلئے مختص کرنے پر مجبور کردیا۔ کشمیری رہنما اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے جو گزشتہ کئی روز سے اپنی رہائش گاہ میں نظربند ہیں، عالمی برادری کو بھارتی بربریت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے درست طور پر واضح کیا ہے کہ ظلم و جبر کی پالیسیاں کشمیری عوام کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتیں۔ ترکی کے شہر استنبول میں تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کی 13؍ ویں سربراہی کانفرنس کے موقع پر منعقدہ کشمیر رابطہ گروپ کے اجلاس نے بھی عالمی برادری سےریاستی عوام پر ڈھائے جانیوالے مظالم رکوانے اور اس باب میں عملی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ گروپ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مزاحمت اور دہشت گردی کا فرق ملحوظ رکھا جائے۔ او آئی سی کو اس باب میں واضح لائحہ عمل بنانا چاہئے اور اقوام متحدہ کو اپنی ان قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہئے جن میں کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کی زندگی اور موت سے تعلق رکھنے والے اس مسئلے کے حل سے عالمی ادارے کی ساکھ بھی وابستہ ہے۔
تازہ ترین