وزارت بجلی و پانی اور توانائی کی فراہمی اور ترسیل سے متعلق اداروں کا یہ رویہ بڑا تعجب خیز ہے کہ موسم سرما کا آغاز ہوتا ہے تو بڑے یقین اور وثوق کے ساتھ عوام کو یہ خوش خبری سناتے ہیں کہ آئندہ موسم گرما میں انہیں لوڈشیڈنگ کی اس قدر اذیت برداشت نہیں کرنا پڑے گی جتنی اس سال کرنا پڑی ہے لیکن ابھی بہار کا موسم بھی پوری طرح ختم نہیں ہو پاتا کہ ان کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور سورج کی تمازت میں ذرا سی تیزی آنے کے ساتھ ہی لوڈشیڈنگ کا جن بوتل سے باہر آ کر عوام کو اس طرح تگنی کا ناچ نچانا شروع کر دیتا ہے کہ انہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ کراچی میں گزشتہ سال شدید گرمی، حبس اور بجلی کی آنکھ مچولی نے شہریوں کا جو برا حال کیا تھا اس میں کئی شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ موسمی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس سال بھی کراچی والوں کو گرمی کی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پنجاب میں لاہور اور اس کے گرد و نواح کے بیشتر علاقوں میں 14گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ گجرات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ راولپنڈی، جہلم اور گوجرانوالہ میں بھی عوام بجلی کی کمی کے عذاب سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے صرف کارخانے اور فیکٹریاں ہی بند نہیں ہوئیں بلکہ عوام کے معمولات زندگی بھی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت متعدد آبی، شمسی ، ہوائی اور جوہری منصوبوں سے توانائی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ کوئلے سے بھی بجلی پیدا کرنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ ان منصوبوں کے تکمیل پذیر ہونے میں یقیناً وقت لگتا ہے ۔موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے تین سال ہونے کو ہیں مگر عوام کو اب تک لوڈشیڈنگ میں کوئی قابل ذکر ریلیف نہیں ملا۔ وہ 2017ء کے اواخر اور 2018کے اوائل تک لوڈشیدنگ کے خاتمہ کے وعدوں کے وفا ہونے کا کب تک انتظار کریں گے۔ بجلی زندگی کی ایک بنیادی سہولت ہے جو عوام کو بہرطور فراہم کی جانی چاہئے۔