• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موٹروے زیادتی کیس نے جیسے دل کو چھلنی کر دیا ہو۔ ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ فرانس سے پاکستان شاید اِس امید کے ساتھ آئی کہ ایک اسلامی ملک میں، جسے ریاستِ مدینہ کے عظیم اصولوں کے مطابق چلانے کا وعدہ کیا گیا ہو، وہاں اپنے بچوں کے ساتھ رہے گی۔

اُن کو ایک اچھے ماحول میں تربیت دے گی، اُنہیں اچھا مسلمان بنائے گی لیکن اُس خاتون کے ساتھ جو ظلم ہوا، جس زیادتی اور درندگی کا سلوک کیا گیا کہ وہ (اطلاعات کے مطابق) اپنے عزیزوں سے اپنے لئے موت مانگ رہی ہے، جو بحیثیت قوم ہم سب کے لئے انتہائی شرمندگی کا مقام ہے۔ اُس بیچاری خاتون کو کیا معلوم تھا کہ یہ تو جانوروں سے بھی بدتر درندوں کا معاشرہ بن چکا ہے۔

اس سانحہ میں کس کی نااہلی تھی یا کون اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوا، اِن سوالوں کا اُس بنیادی خرابی اور بگاڑ سے کوئی تعلق نہیں جس کا ہم بحیثیت معاشرہ شکار ہیں اور جس پر ریاستِ پاکستان، حکومت، سیاست، میڈیا، عدلیہ وغیرہ کسی کی کوئی توجہ نہیں اور یوں ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اخلاقی پستی اور معاشرتی بگاڑ کی نئی حدوں کو پار کرتے جا رہے ہیں۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب کوئی نہ کوئی درندگی کا واقعہ سامنے نہ آئے۔ ایک دو دن رونا دھونا ہوتا ہے اور پھر ہم پستی کے اُسی سفر پر گامزن ہو جاتے ہیں جو ہماری دنیا و آخرت میں ہمارے لئے تباہی کا سبب بن رہا ہے۔

کہنے کو ہم مسلمان ہیں لیکن ہمارے کرتوت ایسے ہیں کہ انسانیت شرما جائے۔ جن دو درندوں نے اِس خاتون کے ساتھ ظلم کیا، وہ پہلے بھی سنگین وارداتوں میں ملوث رہے۔ ایک تو پہلے بھی ڈکیتی کے دوران ایک ماں بیٹی سے زیادتی کرنے کے جرم کا ارتکاب کر چکا ہے۔

بجائے اِس کے کہ اُس کو سرعام پھانسی دی جاتی اُس نے زیادتی کی شکار ماں بیٹی سے راضی نامہ کر لیا اور یوں اُس جانور، اُس درندے کو دوبارہ کسی اور کی زندگی تباہ کرنے کے لئے، درندگی کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ یہ درندہ کئی اور بھی سنگین جرائم میں ملوث تھا لیکن آزاد گھومتا رہا۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ اس کا دوسرا ساتھی جو موٹروے سانحہ میں ملوث تھا، وہ بھی ڈکیٹ ہے اور ابھی ایک دو ہفتہ قبل ہی جیل سے ضمانت پر رہا ہو کر معاشرے کو دوبارہ آلودہ کرنے کے لئے آزاد ہوا تھا۔ یہ کیسی عدالتیں ہیں، یہ کیسی پولیس اور کیسا نظام ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث درندوں کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اُنہیں ریپ جیسے سنگین جرم میں راضی نامہ دے دیا جاتا ہے۔ ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم تباہ و برباد ہو چکا ہے بلکہ اگر سچ پوچھا جائے تو یہ کریمنل جسٹس سسٹم مجرموں، درندوں اور ظالموں کے تحفظ اور اُنہیں مضبوط بنانے کے لئے کام کرتا ہے، جیسے سانحہ موٹروے کے ملزموں کے ماضی سے ظاہر ہوتا ہے۔ اوپر سے ایک ظلم دیکھیں کہ جب کوئی درندہ پکڑا جاتا ہے تو انسانی حقوق والے، این جی اوز، انسانی حقوق کے نام پر ایسے درندوں کے ہمدرد بن کر باہر نکل آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو سرعام پھانسی نہ دو کیوںکہ ان درندوں کی dignityیعنی اُن کے وقار کو ٹھیس پہنچے گی۔

کچھ دوسرے جس میں کچھ سیاسی لوگ بھی شامل ہیں، وہ تو کہتے ہیں کہ سرے سے پھانسی یعنی موت کی سزا ہی ختم کر دی جائے۔ ہمارا دین ایسے درندوں کو نشانِ عبرت بنانے کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس کے لئے نہ ہماری ریاست، نہ حکومت اور نہ ہی عدالت تیار ہیں۔

سب کو فکر ہے کہ دنیا کیا کہے گی۔ ایران، سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک میں سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو سرعام پھانسی بھی دی جاتی ہے، اُن کے سر بھی قلم کئے جاتے ہیں، جس کا جرائم کی کمی میں بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔

قصور کی زینب کے ساتھ زیادتی اور اُسے قتل کرنے والے مجرم نے ساتھ آٹھ بچیوں کے ساتھ یہی ظلم کیا، اُسے پھانسی دے دی گئی لیکن نشانِ عبرت نہ بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ زینب کے بعد سینکڑوں بچوں بچیوں کو اب تک ایسی ہی درندگی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے لیکن مجھے کوئی زینب کے قاتل کے علاوہ کسی دوسرے ایسے ایک درندے کا نام بتا دے جسے پھانسی دی گئی ہو۔ یہ کیا نظام ہے، ظلم اور بربریت تو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے لیکن ظالم مرتا ہوا، تڑپتا ہوا نظر نہیں آتا۔

اگر ہمارا دل اور کلیجہ واقعی سانحہ موٹروے نے چیر کر رکھ دیا ہے تو اس مظلوم خاتون اور قوم کا دل اور کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے لئے اس واقعہ میں ملوث مجرموں کو جلد از جلد سزا دلوا کر موٹروے کی اُسی جگہ لٹکا دیا جائے جہاں اُنہوں نے اُس مظلوم عورت کو اپنی حیوانیت کا شکار بنایا تھا۔ اِن کو نشانِ عبرت بنائیں گے تو لاکھوں، کڑوروں اس سے سابق حاصل کریں گے۔ مظلوم خاتوں سے بحیثیت قوم ہمیں معافی بھی مانگنی چاہئے۔

نشانِ عبرت بنانے کی سزا تو معاشرے کے بگاڑ کو درست کرنے کے لئے صرف ایک قدم ہے۔ سب سے اہم معاملہ معاشرے کی تربیت کا ہے، وہ تربیت جو جانوروں کے معاشرے کو انسان بنائے، اُن میں خوف خدا پیدا کرے، گناہ و ثواب کا احساس دلائے اور انسانیت سیکھائے اور اس کے لئے تعلیمی اداروں، میڈیا، مسجد و منبر کے ذریعے جنگی بنیادوں پر معاشرے اور افراد کی کردار سازی کی جائے۔

اس کے علاوہ پاکستان کا کریمنل جسٹس سسٹم، جو ناکارہ ہو چکا ہے، اُسے جلد انصاف اور مظلوم کے حق میں ریفارم کیا جائے۔ فحاشی و عریانیت کا خاتمہ کیا جائے، شرم و حیا کا مردوں اور عورتوں دونوں میں رواج دیا جائے، زنا کو مشکل اور شادیوں کو آسان بنایا جائے۔

میڈیا کو گھٹیا ڈرامے، اشتہارات نشر کرنے سے روکا جائے۔ اچھائی اور نیک کاموں کی ترویج کی جائے اور برائی سے روکنے کی ذمہ داری ادا کی جائے۔ میں ان معاملات پر پہلے بھی بہت لکھ چکا لیکن یہاں تو کسی بات کا کسی پر اثر ہی نہیں ہوا۔ ایک سانحہ ہوتا ہے اور کچھ دن ہائے ہائے کے بعد قوم کسی دوسرے سانحہ کا انتظار کرتی ہے اور یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین