• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جب امریکہ یا کسی یورپی ملک جاتے ہیں اور وہاں مقیم پاکستانی نژاد دوستوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں بہت پریشان ہیں۔ اس کی وجہ وہاں کا سماجی، انفرادی اور بنیادی حقوق کا نظام بہت مضبوط ہے، ہر شخص نہ صرف اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے لئے آزاد ہے بلکہ ان آزادیوں کو قانونی اور آئینی تحفظ بھی حاصل ہے۔ پاکستانی نژاد لوگوں کو خدشہ یہ ہے کہ ان کے بچے ان کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے یا بےراہ روی کا شکار ہو جائیں گے۔ کچھ لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پاکستان واپس بھیج دیں، جہاں ان کی روایتی اور مذہبی معاشرے میں تعلیم و تربیت ہو لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو مغربی معاشروں کو اپنے بچوں کے لئے زیادہ بہتر تصور کرتے ہیں۔ دونوں نقطہ ہائے نظر کے لوگوں کی یہ بحث جاری رہتی ہے۔

لاہور سیالکوٹ ایم11 موٹروے پر گزشتہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ایک خاتون کے ساتھ ان کے بچوں کے سامنے گینگ ریپ کا جو شرمناک واقعہ رونما ہوا، اس نے بحیثیت قوم ہماری گردنیں جھکا دی ہیں اور میں شرم سے سر جھکا کر یہ کالم تحریر کر رہا ہوں۔ پوری پاکستانی قوم نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ پاکستانی ایک مہذب قوم ہیں لیکن امریکہ اور مغربی ممالک میں مقیم ان پاکستانیوں کا موقف ایسے شرمناک واقعات سے کمزور ہوتا ہے، جو اپنے بچوں کے لئے پاکستانی معاشرے کو مثالی تصور کرتے ہیں۔ اس طرح کے مکروہ جرائم مغرب میں بھی ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسے واقعات کے تدارک کا نظام بہت کمزور ہے اور جو بچے پیدا ہی وہیں ہوئے ہیں، ان کے ذہنوں میں پاکستانی معاشرے کا جو تصور بن رہا ہے، وہ اپنے سے پہلے والی نسل یعنی اپنے والدین کے تصور کے قطعی برعکس ہے۔ مغرب میں جرائم کے باوجود تحفظ کا جو احساس ہے، وہ احساس ہماری حکومتیں اور ریاستی ادارے یہاں پیدا نہیں کر سکے۔ اب تو پاکستان میں بھی یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ اور بچوں کو یہاں سے کسی ’’محفوظ جنت‘‘ میں منتقل کر دیں۔ یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے۔ سانحہ موٹر وے سے پہلے کراچی میں پانچ سالہ معصوم بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے کا اندوہناک واقعہ رونما ہوا۔ اس پر لوگوں کا احتجاج جاری تھا کہ موٹر وے کا واقعہ سامنے آگیا۔ یوں تو ایسے واقعات اکثر اوقات رونما ہوتے رہتے ہیں مگر کچھ واقعات میڈیا پر زیادہ نمایاں ہو جاتے ہیں اور لوگوں کا ردِعمل بھی زیادہ سامنے آتا ہے۔ اس ماحول میں کئی دیگر واقعات بھی افشا ہونے لگتے ہیں، جو قبل ازیں کسی بھی وجہ سے منظر عام پر نہیں آسکے تھے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ اس طرح کے شرمناک واقعات کی شرح کس قدر زیادہ ہے۔

ان باتوں سے میرا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرہ دنیا کے دیگر معاشروں سے زیادہ خراب ہے۔ مجھے تشویش صرف اس بات پر ہے کہ پاکستانی سماج کے بارے میں ہمارے تصورات سے نئی نسلیں متفق نہیں ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ان میں عدم تحفظ کا احساس ہے اور تحفظ فراہم کرنے والے اداروں پر ان کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ موٹر وے اور معصوم بچی مروہ کے واقعات میں ملوث درندہ صفت لوگوں کی مجرمانہ ذہنیت کے حوالے سے ماہرین نفسیات اور جرمیات زیادہ تفصیل سے بات کرسکتے ہیں لیکن مجرمانہ ذہنیت کی نمو کو روکنے کے لئے ہمارے سماجی، اخلاقی اور قانونی نظام اپنی صلاحیت کھو رہے ہیں۔ اس کے بےشمار اسباب ہیں۔ جس میں ملک میں آئین توڑنا کوئی جرم نہ ہو، جہاں طاقتور اور کمزور کے لئے الگ الگ قوانین ہوں، جہاں قومی مفادات کے نام پر لوٹ مار کی جاتی ہو، جہاں سیاسی عمل اور اختلاف رائے کو کچلنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہو، جہاں آزادی فکر و خیال نہ ہو اور جہاں وحشیانہ طاقت اور دولت کی پوجا کی جاتی ہو، وہاں مجرمانہ ذہنیت کی نمو کو روکنا ممکن نہیں۔

جرائم تو دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن عدم تحفظ کا حساس جس قدر یہاں ہے، شاید کہیں اور ہو۔ کمزور طبقات اور گروہوں میں خواتین اور بچیاں سب سے زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ خواتین کے معاملے میں مغرب بہت زیادہ حساس ہے۔ جو معاشرہ اپنی خواتین اور بچیوں کی حفاظت نہیں کر سکتا، وہاں اخلاقیات کا کوئی نظام مضبوط نہیں کر سکتا۔ موٹر وے سانحہ کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ کا یہ بیان کہ رات کو دیر گئے خاتون اکیلی کیوں گئیں اور انہوں نے موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ پر سفر کیوں نہیں کیا، ایک مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کرتا ہے ۔ سی سی پی او کے بیان پر یہ تنقید اس لئے ہو رہی ہے کہ تحفظ فراہم کرنے والا اگر ایسی باتیں کرے گا تو پھر وہ تحفظ کیسے فراہم کر سکے گا۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ عورت کو اکیلے گھر سے نہیں نکلنا چاہئے۔ اکیلی عورت خود اپنے اوپر مجرمانہ حملہ کرانے کی ذمہ دار ہے۔ اس مائنڈ سیٹ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے حکمراں کم از کم اس CCPOکو انکوائری مکمل ہونے تک معطل ہی کر دیتے!

پنجاب پولیس نے اگرچہ موٹروے سانحہ کے ملزمان کی نشاندہی کر دی ہے، جو کسی حد تک پاکستانی قوم کے روح پر لگنے والے زخموں کے لئے مرہم بن سکتی ہے لیکن پاکستان میں مجرمانہ ذہنیت، درندگی اور وحشت کی نمو کو روکنے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب میں مجرم کی اصلاح کی جاتی ہے، ہمارے ہاں کومتی، ریاستی، اخلافی، سماجی، قانونی اور عدالتی نظاموں میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک مجرم پر سارا غصہ نکالنے اور اسے سرعام پھانسی کا مطالبہ کرنے اپنا کتھارسس کرنے سے کام نہیں چلے گا اور نہ ہی ہم یہ کرکے بری الذمہ ہو جائیں گے۔ ہمیں ان حالات کو بدلنا ہوگا، جو مجرمانہ ذہنیت کو جنم دے رہے ہیں۔

تازہ ترین