• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی کالم نگار ہونے کے ناطے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کروں۔ پی ٹی آئی حکومت تبدیلی اور کرپشن کے خاتمے کے نام پر برسراقتدار آئی تھی۔ عمران خان نے 50لاکھ سستے مکانات اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کے قرضے کی شرائط پر عملدرآمد کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء، پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ بڑھاکر 13.25 فیصد کرنے سے بینکوں کی شرح سود 15سے 16فیصد ہوگئی جس سے صنعتی سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری رک گئی اور نئی ملازمتوں کے مواقع محدود ہوگئے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت روپے کی قدر میں کمی کی گئی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرکر 105سے 168روپے کی سطح پر آگئی۔ روپے کی قدر میں 35فیصد ڈی ویلیو ایشن سے حکومت توقع کررہی تھی کہ ملکی ایکسپورٹس میں تیزی سے اضافہ ہوگا لیکن گزشتہ 5برسوں میں ملکی ایکسپورٹس میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا جس کی وجہ بجلی اور گیس کے مہنگے نرخ کے باعث صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہے جس نے ہماری مصنوعات کو عالمی مارکیٹ میں غیر مقابلاتی بنادیا ہے۔

میں نے اپنے گزشتہ کئی کالموں میں حکومت کی توجہ بارہا اس اہم مسئلے کی طرف مبذول کرائی کہ ہمارے مہنگے بجلی اور گیس کے نرخ کی وجہ آئی پی پیز اور دیگر بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں ہیں جن سے حکومت نہایت مہنگے نرخوں پر بجلی خرید رہی ہے اور آئی پی پیز کو بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے نیپرا کو بار بار بجلی کے نرخ بڑھانے پڑرہے ہیں جبکہ ہمارے گردشی قرضے جولائی تک 2150ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں۔ میں نے آئی پی پیز پر 28مئی 2020کے اپنے کالم ’’آئی پی پیز میں ہزاروں ارب روپے کی کرپشن‘‘ میں بتایا تھا کہ2002میں مشرف دور میں اصل پاور پالیسی کو تبدیل کرکے آئی پی پیز کو اضافی مراعات دی گئیں جن میں موجودہ حکومت کے وزیر، مشیر اور معاون خصوصی کی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔ پالیسی کے تحت پاور ٹیرف کے نرخ روپے کے بجائے ڈالر میں کرنے سے آئی پی پیز کا طے شدہ منافع (IRR)17فیصد سے بڑھ کر 27فیصد تک پہنچ گیا جس میں روپے کی ڈی ویلیوایشن بھی شامل تھی۔ اِن ونڈ پاور پروجیکٹ کی اصل قیمت 60ملین ڈالر تھی جبکہ زیادہ منافع حاصل کرنے کیلئے اُنہیں دگنا 120ملین ڈالر دکھایا گیا تھا۔ بجلی نہ لینے کی صورت میں آئی پی پیز کو 60فیصد کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی اور فیول کی مد میں اربوں روپے اضافی دیئے گئے جن سے اِن کمپنیوں کا منافع 50سے 70فیصد تک پہنچ گیا۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے آئی پی پیز پر میری توجہ دلانے پر 13نجی شعبے اور 6سی پیک کے ونڈ پاور منصوبوں سے کامیاب مذاکرات کئے جس کے نتیجے میں اب اُنہیں 1994اور 2002کی پاور پالیسی کے تحت ڈالر کے بجائے روپے میں منافع دیا جائے گا اور معاہدے کی باقی مدت کیلئے ڈالر اور روپے کی قیمت 148روپے فکس کردی گئی ہے جس کے نتیجے میں ونڈپاور آئی پی پیز کا ٹیرف 24روپے سے کم کرکے 14روپے فی یونٹ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ آئی پی پیز کمپنیاں نیپرا کے ذریعے حکومت کو 104ارب روپے واپس کرنے پر بھی تیار ہوگئی ہیں۔ آئی پی پیز سے نئے معاہدے کے تحت حکومت کو مجموعی 604ارب روپے کی بچت ہوگی جس پر میں حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) کے صدر انجم نثار نے مطالبہ کیا ہے کہ ان آئی پی پیز کو اضافی ادائیگیوں کی وصولی کیلئے فارنزک آڈٹ کرایا جائے تاکہ صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کی جاسکے۔ 

حکومت کی دو سالہ کارکردگی کیلئے اگر ہم گزشتہ بجٹ اور اکنامک سروے کا جائزہ لیں تو اِن دو سالوں میں حکومت کی تمام شعبوں میں کارکردگی مایوس کن رہی جس میں کورونا وائرس کے منفی اثرات صرف 3مہینے کے ہیں۔ ملکی جی ڈی پی گروتھ اپنے 3.3فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 0.4فیصد، مینوفیکچرنگ سیکٹر 2.3فیصد گروتھ کے مقابلے میں منفی 2.64فیصد، زراعت کے شعبے کی گروتھ 3.5فیصد کے مقابلے میں منفی 2.67فیصد اور سروس سیکٹر کی گروتھ 4.8فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 0.59فیصد رہی۔ ریونیو وصولی کے ہدف میں بھی تقریباً 900ارب روپے کمی رہی اور حکومت 2019-20میں امپورٹس، ایکسپورٹس، سرمایہ کاری، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری اور سرکولر ڈیٹ کی ادائیگی سمیت کوئی معاشی ہدف حاصل نہیں کرسکی۔ وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق گزشتہ 15ماہ میں ملکی قرضوں میں 40فیصد اضافہ ہوا اور ہمارے بیرونی قرضے 113ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔

حکومت اور صوبوں کے کووڈ 19سے نمٹنے کی حکمت عملی کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ مالی سال 2019کے 13.43ارب ڈالر سے کم ہوکر 2.96ارب ڈالر سالانہ رہ گیا ہے لیکن اس کی اہم وجہ اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی، سست معاشی سرگرمی اور مہنگے ڈالر سے امپورٹس میں خاطر خواہ کمی ہے تاہم آٹا، چینی اور پیٹرول بحران میں ملوث کرپشن مافیا کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لانے سے پی ٹی آئی کے ’’احتساب بیانئے‘‘کو نقصان پہنچا ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمر کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی ناکامیوں میں حکومت میڈیا تعلقات میں سرد مہری، کرپشن میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی نہ ہونا اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہے جبکہ کامیابیوں میں حکومت کی کووڈ 19سے نمٹنے کی حکمت عملی، کامیاب خارجہ پالیسی، احساس پروگرام اور شجرکاری مہم ہے لیکن اس میں معاشی کارکردگی کا ذکر نہ کرنا باعثِ حیرت ہے۔

تازہ ترین