• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

28جولائی 2020، سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کا سیکریٹری مواصلات ظفر حسن کوخط، لاہور، سیالکوٹ موٹروے پر نفری تعینات کی جائے، یہ اسی موٹروے کی بات، جہاں خاتون کا ریپ ہوا، خط میں آئی جی نے کہا 80فیصد نفری پنجاب ہائی وے پولیس، 20فیصد نفری نیشنل ہائی وے پولیس کی ہو، یہ خط نظر انداز کردیا گیا۔

یہ سانحہ ہوا، اب لاہور، سیالکوٹ موٹروے پر نفری تعینات کر دی گئی، مطلب جب تک کوئی حادثہ، سانحہ نہ ہو، میڈیا میں شور نہ مچے، تب تک بےحس سرکاری بابوؤں کو کام نہیں کرنا، آگے سنئے، رات ڈیڑھ بجے کے قریب خاتون موٹروے ہیلپ لائن پر فون کرتی ہیں، میں اور 3بچے، گاڑی خراب، غالباً پٹرول ختم ہو گیا، مدد کریں، پتا ہے جواب کیا ملتا ہے، آپریٹر کہتا ہے، یہ موٹروے ہماری جوریڈکشن میں نہیں، ابھی موٹروے پولیس نے اس حصے کا کنڑول نہیں سنبھالا، آپ فلاں نمبر پر کال کریں۔

اب آپ بتائیں، آدھی رات کے وقت 3معصوم بچوں کے ساتھ ایک خاتون کی کال آئے، میری مدد کریں، کیا آگے سے یہی جواب دینا چاہئے، سوری یہ موٹروے ہماری جوریڈکشن میں نہیں، آپ بتائیں، اگر یہی فون کسی اعلیٰ افسر، وزیر، مشیر کی بیگم صاحبہ کر دیتیں، کیا پولیس آپریٹر کا یہی جواب ہوتا یا دیکھتے ہی دیکھتے موٹروے پولیس کیا پنجاب پولیس کے بیسیوں لوگ پہنچ جاتے۔

آگے سنئے، خاتون کی گاڑی کے شیشے سے مجرموں کے خون کا نمونہ لے کر جب ٹیم فرانزک لیب پنجاب پہنچی تو پتا چلا لیب کے پاس کیمیکل نہ ڈی این اے کٹس، پوچھا گیا، یہ کیوں، جواب ملا، فنڈز ختم ہو چکے، وزارتِ خزانہ پنجاب سے فنڈز مانگ مانگ تھک گئی، حسب معمول عین وقت پر بھگدڑ مچی اور چند گھنٹوں میں فرانزک لیب کو 5کروڑ 44لاکھ دے دیے گئے۔

آگے سنئے، سانحہ موٹروے کے ایک ملزم عابد پر 8مقدمے، دو مقدے ریپ کے بھی، ایک ریپ یوں کیا، ایک گھر میں گھسا، مرد کو باندھا، اسی کے سامنے اسکی بیوی، بیٹی کا ریپ کر دیا، اس انسان نما درندے کو اس ریپ کے بعد گولی مار دی جاتی، پھانسی دے دی جاتی، سانحہ موٹروے نہ ہوتا، دوسرا ملزم وقار الحسن، عادی وارداتیا، آگے سنئے، پورا ملک سانحہ موٹروے کے غم، دکھ میں ڈوبا ہوا، چاروں طرف پولیس کے طرزعمل پر بات ہورہی۔

پتا چلتا ہے تونسہ میں دو بچوں کی ماں سے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی ہو گئی، یہی نہیں بلکہ خاتون کے گھرو الے 24گھنٹے دربدر رُلتے رہے، تب تک ایف آئی آر درج نہ ہوئی، جب تک علاقے کے لوگ باہر نہ نکل آئے لیکن جب مقدمہ درج ہوا، میڈیکل رپورٹ جاری کی گئی، تب تک علاقے کے ڈی ایس پی نے یہ خوشخبری سنادی کہ دونوں ملزموں نے عبوری ضمانت کرالی ہے۔

آگے سنئے، اِدھر سانحہ موٹروے، گھر گھر صفِ ماتم، اُدھر سیاست کا بدبودار کھیل جاری، مسلم لیگ کہہ رہی، لاڈلے سی سی پی او کو ریپسٹ جتنی سزا دی جائے، پیپلز پارٹی فرما رہی، سی سی پی او مجرموں کے سہولت کار، سی سی پی او کے سہولت کاروں کو کٹہرے میں لایا جائے، تحریک انصاف کا کہنا سی سی پی او پر سیاست ہورہی، اندازہ کریں، قوم کس کرب میں، یہ سب کیا کھیل کھیل رہے، مانا سی سی پی او کا بیان غلط، افسوناک، معذرت کرنی چاہئے مگر ریپ ہونے والی خاتون، ریپ کرنے والے مجرم، حکومت، حکومتی اداروں کا رسپانس، آئندہ ایسا نہ ہو، سب چھوڑ کر ہماری سیاست سی سی پی او میں پھنسی ہوئی، ہر واقعے، حادثے اور سانحے کو اپنے ایجنڈوں کی عینک سے دیکھنا، افسوناک۔

یہ چند مثالیں، حکومت، پولیس، جوڈیشری، معاشرے، سیاست کی، رات گئے اکیلئے گھر سے نکلنا، لاہور سے گوجرانوالہ جانے کیلئے اس سنسان موٹروے کے بجائے آبادی والا جی ٹی روڈ کا رستہ نہ لینا یا گاڑی کا پٹرول چیک کر کے گھرسے نہ نکلنا، یہ چھوڑیں بڑی غلطی یہ، خاتون سمجھ بیٹھیں یہ میرا ملک، میں اپنوں میں، میں محفوظ، یہاں مجھے وہ ٹرک والے رہ رہ کر یاد آرہے جو گاڑی میں اکیلی خاتون کو دیکھ کر ٹرک روک کر اشارے کرتے، گنگناتے، گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹاتے رہے، یہاں وہ بزدل راہگیر بھی یاد آرہا جس نے نہ صرف یہ دیکھا کہ ایک شخص خاتون کو تھپڑ مار رہا، زبردستی جنگل میں لے جانے کی کوشش کر رہا بلکہ خاتون نے اسے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا اشارہ بھی کیا مگر وہ نہ رکا۔

یہاں میں یہ بھی سوچ رہا، موٹروے کھول دیا مگر پولیس نہ پٹرول پمپ، میں اس پر بھی دکھی کہ خاتون فون کرتی رہی، 2سے ڈھائی گھنٹے کوئی نہ آیا، یعنی ڈیوٹی والے ڈیوٹی پر نہ تھے، وقت پر عوام کے محافظ نہ پہنچے، کسی نے گھٹیا اشارے کئے، کوئی اپنی آنکھوں سے سب کچھ ہوتا دیکھ کر گزر گیا اور کوئی سب کچھ لوٹ کر چلتا بنا۔

کیا بتاؤں، خاتون ایسی صدمے میں، 6دن ہو گئے، بس وقفے وقفے سے یہی کہے جارہی، مجھے ماردو، مجھے ماردو، تینوں بچے ڈر، خوف، سکتے کے اس عالم میں کہ 6دنوں بعد بھی چند جملے بولنے کے قابل نہیں، قابلِ عزت خاتون، بچوں کی اگلی زندگی اور یہ اندھیری رات، توبہ توبہ، کئی بار کہہ چکا، یہ نظام بدبودار، بےکار، بےحس، اب بڑی تبدیلیوں کی ضرورت، وقت آگیا، اب ہمیں کم ازکم ریپ کے مجرموں کو ایک مقررہ وقت کے اندر سرعام پھانسی دینا ہوگی، جونہی کوئی ریپ کا ملزم پکڑا جائے، ماڈل کورٹ میں مقدمہ، ایک سے 3مہینے کے اندر سرعام پھانسی، صرف 5سال یہ کرلیں۔

حالات بدل جائیں گے، یہ ریپ کرنے والے انسان نہ ان کے انسانی حقوق، یہ درندے، ان سے درندوں جیسا سلوک کرناچاہئے، کیا ملک،قومی اسمبلی میں بتایا جاچکا، 5برسوں میں 18ہزار بچے، بچیوں، خواتین سے جنسی زیادتی ہو چکی، مجھے پتا ہم کمزور یاداشتوں والی قوم، مجھے پتا ہر حادثے، سانحے پر چند دنوں، چند ہفتوں کا شور شرابہ پھر سب کچھ بھول بھلا دیا جائے۔

مجھے پتا اس بار بھی یہی ہوگا مگر پھر بھی سب سے یہی کہنا، مقررہ وقت میں سرِعام پھانسی ورنہ عابد جیسے درندے ریپ کرتے رہیں گے اور ریپ کرکے چھوٹتے رہیں گے۔

تازہ ترین