• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیامِ پاکستان سے اب تک ہم اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار بیوروکریسی کو قرار دیتے ہوئے برا بھلا کہتے رہے ہیں۔ سول سرونٹس پر افسر شاہی کی پھبتی کسی گئی، ان کی فضول خرچیوں اور عیش و عشرت پر تنقید کی جاتی رہی، ہر کام میں رکاوٹ ڈالنے اور سست روی کا مظاہرہ کرنے کے طعنے دیے جاتے رہے۔ عکسی مفتی جیسے لکھاریوں نے کاغذی کارروائی پر اکتفا کرنے کی پاداش میں سول سرونٹس کو ’’کاغذی گھوڑا‘‘ کہا۔ مجھ سمیت بیشتر لوگ یہ سمجھتے رہے کہ اس ملک کو بیوروکریسی لوٹ کر کھا گئی ہے۔ بیچارے وزیر مشیر تو آتے جاتے رہتے ہیں مگر اصل راج یہ بابو کرتے ہیں جن کے دستخط کے بغیر بات نہیں بنتی۔ عوام کی طرح ان کے نمائندے بھی بیوروکریسی سے ہمیشہ خفا رہے اور یہی بیانیہ لیکر اپنے سیاسی کارکنوں کو مطمئن کرتے رہے کہ افسر شاہی اس ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چونکہ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر زوال و انحطاط کا شکار ہے اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارے بیوروکریٹ دودھ کے دھلے ہیں، محولا بالا تمام اعتراضات جھٹلائے نہیں جا سکتے لیکن سچ یہ ہے کہ بیوروکریسی ناحق بدنام ہے۔ ہمارے ہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، ہر وہ شخص جو ضابطے، قاعدے اور قانون کے مطابق چلنا چاہتا ہے، کسی کو نہیں بھاتا۔ بیشتر لوگ خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو، وقت کے سانچوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ جوخود وقت کے سانچوں میں ڈھلنے کے بجائے ان سانچوں کو بدلنے کیلئے کوشاں ہیں، ان کا تعلق کس طبقے سے ہے اور ان کی شرح کیا ہے؟سیاستدان سویلین بالادستی، جمہوریت، ووٹ کو عزت دو جیسے نعرے ضرور لگاتے ہیں، حکومتوں سے نکالے جاتے ہیں، لیکن اصول پسند سیاسی شخصیات کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے اور پھر بیشتر وہ ہیں جو موقع ملتے ہیں سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ یہی حال باقی سب طبقات کا ہے مگر سب سے زیادہ مزاحمت سول سرونٹس کر رہے ہیں۔ فواد حسن فواد اور احمد چیمہ جیسے قابل افسر جو مسلسل ابتلا و آزمائش کا سامنا کر رہے ہیں، اگر وہ وعدہ معاف گواہ بن جاتے اور ایک کاغذ پر دستخط کر دیتے تو سب مشکلیں کافور اور غم دور ہو جاتے لیکن انہوں نے کوئی سودے بازی نہیں کی۔ ڈی جی ایف آئی بشیر میمن کو اپوزیشن کے خلاف مقدمات بنانے کو کہا گیا لیکن اس نے انکار کردیا۔ اس انکار کی قیمت یوں ادا کرنا پڑی کہ ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل مستعفی ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ ایف بی آر کی چیئر پرسن نوشین جاوید امجد کو جن کی سفارش پر لایا گیا، وہ انہیں ہی خفا کر بیٹھیں۔ اگر وہ چاہتیں تو بعض معاملات پر سمجھوتہ کرکے اپنی کرسی بچا سکتی تھیں لیکن انہوں نے انکار کردیا اور یوں کسٹمز سروس کے جاوید غنی کو چیئرمین ایف بی آر لگا دیا گیا جبکہ نوشین جاوید جو آئی آر ایس کی آفیسر تھیں، انہیں نیشنل ہیریٹج اینڈ کلچر ڈویژن میں بھیج دیا گیا۔ یاد رہے کہ دو سال میں چوتھی بار چیئرمین ایف بی آر تبدیل کیا گیا۔ ایف بی آر کے ممبر پالیسی ڈاکٹر حامد عتیق سرور اپنے کیڈر کے ایک اور قابل افسر تھے جنہیں غیر مشروط اطاعت نہ کرنے پر کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ ایک اور ہونہار افسر ڈاکٹر فیض الٰہی میمن جو ممبر ایڈمنسٹریشن تھے، انہیں کراچی میں ایک نہایت غیر اہم منصب (ڈائریکٹر جنرل اسپیشل اینی شی ایٹو ،جس کا دفتر ہی نہیں ہے)پر تعینات کردیا گیا۔

پنجاب میں دو سال کے دوران پانچ آئی جی، 4چیف سیکرٹری، 9سیکرٹری ہائر ایجوکیشن، 11 سیکرٹری آبپاشی اور پانچ سیکرٹری خوراک اسلئے تبدیل ہوئے کہ انہوں نے قانون کی عملداری پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا۔ پنجاب کا کوئی ایک بھی ضلع ایسا نہیں جہاں دو سال سے ایک ہی ڈی پی او، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر تعینات ہو۔ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت، کبھی او ایس ڈی بن کر پوسٹنگ کے انتظار میں رہنا آسان نہیں ہوتا۔ آپ پاکپتن کی مثال لے لیں ،یہاں دو سال کے دوران پانچواں ڈی پی او تعینات ہے۔ رضوان گوندل ایک بااثر خاندان کو ناراض کر بیٹھے تو اس وقت کے چیف جسٹس ازخود نوٹس لینے کے باوجود انہیں بحال نہ کروا سکے۔ 30اگست 2018ءکو ماریہ محمود کو ڈی پی او لگایا گیا۔ اس کے بعد یکم مئی 2019ءکو عبادت نثار بطور ڈی پی او تعینات ہوئے۔ بابا فرید گنج شکر کا عرس شروع ہوا تو یہ بھی رضوان گوندل کی طرح اسی بااثر خاندان کو خفا کربیٹھے چنانچہ اکتوبر 2019ءمیں صاحبزادہ بلال عمر کو ڈی پی او لگا دیا گیا۔ یہ بھی اس عہدے پر نہ ٹک سکے اور پھر نجیب الرحمان کو ڈی پی او پاکپتن بنادیا گیا۔ ننکانہ صاحب میں بھی یہی صورتحال رہی۔ اسماعیل کھڑ ک کا بطور ڈی پی او تبادلہ ہوا تو یکے بعد دیگرے فیصل شہزاد اور محمد نوید کو ڈی پی او لگا دیا گیا۔ یہ دونوں ایک طاقتور وفاقی وزیر کو خوش نہ رکھ پائے تو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ صرف ایک سال کی مدت میں تین ڈی پی او تبدیل ہونے کے بعد اسماعیل کھڑک کو دوبارہ ڈی پی او ننکانہ صاحب لگا دیا گیا۔ یہ محض دو اضلاع کی کہانی نہیں، ہر ڈی پی او اور آرپی او کی کرسی کو میوزیکل چیئر بنادیا گیا ہے۔ راولپنڈی میں دو سال کے دوران تین کمشنرز کو ہٹایا جا چکا ہے اور چوتھا کمشنر تعینات ہے۔ ہمارے ہاں جن محکموں کی مثالیں دی جاتی ہیں اگر وہاں بھی ہر تین ماہ بعد تبادلے ہوں تو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے۔ یہ سول سرونٹ ہمارے وِلن نہیں ہیرو ہیں، کبھی انہیں بھی کہنا چاہئے، سول سرونٹ تجھے سلام۔

تازہ ترین