• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11فروری2013ء کو سپریم کورٹ جانا ہوا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ وطن عزیز میں تعلیم کی زبوں حالی کے حوالے سے ایک سوموٹو کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ تعلیم جیسے اہم اور بنیادی فریضے کے بارے میں متعلقہ محکموں اور اہلکاروں کی مجرمانہ غفلت پر چیف جسٹس اور بنچ کے دیگر ارکان جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت کی بیقراریاں دیکھنے کے لائق تھیں جو متعلقہ افسران سے نہایت دلسوزی سے پوچھ رہے تھے کہ کیا وہ نہیں جانتے کہ ملک بھر میں سرکاری اسکولوں کی حالت کس قدر دگرگوں ہے؟ کیا وہ وڈیروں، جاگیرداروں اور بااثر لوگوں کے ڈیروں، بیٹھکوں اور باڑوں کے طور پر استعمال نہیں ہو رہے؟ کیا ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ اسکول ملک کے طول و ارض میں موجود نہیں؟ کیا نام نہاد اساتذہ کی ایک بڑی تعداد گھر بیٹھے تنخواہیں نہیں لے رہی؟ کیا میرٹ کی دھجیاں نہیں اڑائی جا رہیں اور نااہل اور سفارشی لوگوں کی بھرتیاں نہیں ہو رہیں؟ تعلیمی کارکردگی کی فرضی رپورٹوں کے پلندے پیش کرنے والے سرکاری عمال کی فہمائش کرتے ہوئے ایک جج نے کہا کہ کیا انہیں ذرا بھی احساس نہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو حکم دیا گیا کہ فرضی رپورٹس پیش کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کرائے جائیں اور تمام اضلاع کی تعلیمی کارکردگی کی مبنی برحقائق رپورٹس کی تیاری کیلئے متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے مدد اور رہنمائی حاصل کی جائے۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ نہیں چل سکتا کیونکہ یہ عوام الناس کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ تعلیم ان کا آئینی حق ہے، جس سے محروم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انگریز کا بنایا ہوا اسکول سسٹم کس قدر منظم اور موثر تھا، اس کا اندازہ نئی نسل کو شاید نہ ہو مگر پچاس، ساٹھ اور کسی حد تک ستّر کی دہائیوں میں ان سرکاری اداروں میں زیر تعلیم رہنے والے اس بات کی مجسم گواہی ہیں کہ زمینی حقائق سے جڑے ہوئے اس نظام نے قوم کو علمی ہی نہیں معاشی، معاشرتی، روحانی اور نفسیاتی طور پر اس قدر توانا کیا کہ مستفید ہونے والوں نے اپنے آپ کو ہر ہر شعبے میں منوایا۔ یہ اس نظام تعلیم سے فیضیاب ہونے والی لاٹ ہی تھی جس نے آزادی کے بعد پاکستان کو کچھ اس طور سنبھالا کہ انگریز کے جانے کا خلا محسوس نہ ہوا۔ نام گنوانا ممکن نہیں کیونکہ تعداد بے شمار ہے، یہ بڑے نام آج بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں اور اپنے آپ کو منوا رہے ہیں مگر یہ سلسلہ شاید زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ پائے کیونکہ جس نظام کی یہ پیداوار ہیں بدقسمتی سے ہم نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہے اور اس وقت کا تصور کرکے خوف آتا ہے جب زمینی حقائق سے کٹے ہوئے اور کنفیوزڈ نظام تعلیم کے پروردہ وطن عزیز کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔
وطن عزیز میں اس وقت کونسا نظام تعلیم رائج ہے؟ یہ سادا سا سوال ہر کوئی دہرا رہا ہے مگر جواب کسی کے پاس نہیں۔ کوئی اسے دہرا نظام کہتا ہے، کوئی تہرا اور کوئی چوہرے کا نام دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نظام کی تہوں کی گنتی ناممکن ہے ہر ادارے کا اپنا نظام اور اپنا معیار ہے، سو جتنے ادارے ہیں اتنے ہی معیار ہیں اور اتنے ہی نظام۔ سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی کی وجہ سے قریہ قریہ، بستی بستی نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ جو چند سو یا چند ہزار روپوں کے عوض لوئر مڈل کلاس کو ان کے بچوں کے حوالے سے خواب بیچ رہے ہیں۔ گو سرکاری اسکول سمٹتے جا رہے ہیں اور کمبائن ہو رہے ہیں مگر غریب غرباء کے بچے ہنوز انہی اسکولوں میں پڑھتے ہیں، جہاں فیس اور تعلیم ہر دو نہ ہونے کے برابر ہے اور بدنصیب طلبا و طالبات وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ اشرافیہ کیلئے نامی گرامی رہائشی اداروں کے علاوہ جانی پہچانی چینز کے تحت کھلنے والے انگلش میڈیم اسکولز ہیں، جہاں کی فیسیں اور دیگر اخراجات ہوشربا ہیں۔ جنہیں سن کر عوام محض کانوں کو ہاتھ ہی لگا سکتے ہیں۔
ہم کسی بھی سسٹم اور میڈیم کے خلاف نہیں مارکیٹ میں وہی کچھ آتا ہے جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے یا پیدا کردی جاتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ رنگا رنگ ناموں اور نظاموں والے سب ادارے مل کر بھی اسکول ایجوکیشن کی محض 10% ضرورت پوری کررہے ہیں۔ باقی 90% بے وسیلہ آبادی تو سرکاری اسکولوں کے سوا کچھ ایفورڈ نہیں کر سکتی۔ کیا یہ حقیقی پاکستان اور آپ کے اصل ووٹر اس کے بھی اہل نہیں کہ ان کے لئے مناسب تعلیم کا بندوبست ہی کردیا جائے۔ جس کیلئے فالتو کچھ نہیں کرنا اربوں کا بجٹ بھی موجود ہے اور انفرا اسٹرکچر بھی اور بڑی بڑی تنخواہوں اور گزیٹڈ پوسٹوں والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ بھی موجود ہیں۔ میرٹ پر سلیکشن کا بھی دعوی ہے، تو کیا وجہ ہے کہ سرکاری اسکول بتدریج بند ہو رہے ہیں، کمبائن ہو رہے ہیں اور دو دو، چار چار ہزار تنخواہ والے میٹرک/ ایف اے کی کوالیفکیشن والے پرائیویٹ ادارے پھل پھول رہے ہیں اور زرلٹ بھی دے رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ پانی کہاں گرتا ہے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، سیدھی سی بات ہے، پوچھنے والا کوئی نہیں، جنہوں نے پوچھنا تھا انہوں نے اپنی دنیا ہی الگ بسا لی ہے، ان کے لاڈلوں کی تعلیم کیلئے بہترین ادارے موجود ہیں۔ سرکاری اسکولوں سے ان کا ناتا مدت ہوئی ختم ہو چکا، ایسے میں انہیں کیا پریشانی ہے؟ مسئلہ تو غریب غرباء کا ہے۔
اب سپریم کورٹ نے ذمہ داری اٹھائی ہے تو صرف ایک کام کر دے۔ قوم کو 50/اور 60 کی دہائی کے سرکاری اسکول لوٹا دے جہاں ججوں، جرنیلوں، سیکرٹریوں، سفیروں، وزیروں کے بچے ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے اور یہ صرف اور صرف اس صورت میں ہوگا کہ انہیں پھر سے پابند کردیا جائے گا کہ بچے سرکاری اسکولوں میں ہی پڑھیں گے یعنی جس کسی کی بھی تنخواہ سرکاری کھاتے سے آتی ہے، ان کے بچوں پر پرائیویٹ اسکولوں کے دروازے بند ہوں گے۔ جس دن یہ ہوگیا، سب ٹھیک ہو جائے گا، ایک ناقابل یقین معجزے کی مثل، ورنہ یقین مانئے وطن عزیز کی 90% آبادی زندگی کی دوڑ سے یکسر باہر ہو جائے گی۔ ان کے بچے پڑھ لکھ کر بھی چپراسی اور چوکیدار کی سطح سے اوپر نہیں اٹھ سکیں گے، سول، فوج اور پرائیویٹ سیکٹر کی اعلیٰ ملازمتیں ان کے لئے محض خواب و خیال ہوں گی۔ جس کی ابتدا ہو بھی چکی۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ، صوبائی پبلک سروس کمیشن اور فوجی ریکروٹمنٹ اداروں کی رپورٹس اس پر گواہ ہیں کو سول سروس اور کمیشنڈ جابز پر ایک خاص طبقے کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔ کم وسیلہ دیہی اور شہری لوئر مڈل کلاس کے بچے بتدریج مقابلہ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے، پاکستان کی یہ محروم اکثریت کوئی چاند تو نہیں مانگ رہی۔ یکساں حقوق اور مواقع کا ہی تو مطالبہ ہے جو آئینی بھی ہے قانونی بھی اور فطری بھی۔ اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اسپ تازی کی ٹانگیں باندھ دی جائیں تو گدھے سے بھی مات کھا جائے گا۔
تازہ ترین