• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاوید، مظہر، طفیل اور سلمان کو میں جانتا ہوں۔ یہ چاروں اسٹوڈنٹس بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ بیرون ملک اپنی تعلیم کے حصول کیلئے بڑی محنت کر رہے ہیں بلکہ اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے یہ فالتو اوقات میں ریستورانوں، ڈیپارٹمنٹل اسٹورز، ہوم ڈلیوری اور واش رومز تک صاف کرنے کا کام کرتے ہیں، اپنے کپڑے تک خود دھوتے ہیں۔ یہ چاروں دوست عموماً فون کے ذریعے مجھ سے بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ پورے ملک کی طرح وہ بھی 2013ء کے الیکشن ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں اور سیاسی رہنماؤں کے حوالے سے بہت سارے سوالات کرتے ہیں اور یہ اس وقت فون کرتے ہیں جب میں سونے کی تیاری کر رہا ہوتا ہوں۔ لیکن ملک سے محبت اور فکر کے حوالے سے ان کی گفتگو سے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ گزشتہ روز رات کے تقریباً ایک بجے سلمان کے فون نے مجھے حیران کر دیا۔ سلام، حالات اور موسم کے حوالے سے حسب سابق گفتگو کرنے کی بجائے سلمان نے پوچھا علی بھائی الیکشن ہونے کے کتنے فیصد امکانات ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ سوال تو مشکل ہے لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ نہ ہونے کے مقابلے میں الیکشن ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، لیکن سلمان تم کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہو، نہیں میں پریشان تو نہیں ہوں لیکن جاوید، مظہر، طفیل اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم الیکشن میں ووٹ ڈالنے کیلئے خاص طور پر پاکستان آئیں گے، گو کہ اس سے ہمارے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے، ہماری پڑھائی پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، لیکن علی ہم الیکشن میں ووٹ ضرور ڈالنا چاہتے ہیں۔ میں نے سلمان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ چاروں کا جذبہ قابل تحسین ہے لیکن آپ اتنے اخراجات کرو گے، اتنا وقت ضائع ہوگا۔ تو سلمان نے جواب دیا۔ علی ہم نے بڑی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ہر قیمت پر ووٹ ضرور کاسٹ کریں گے کیونکہ ہمارے ذاتی نقصان سے ہمارے ملک کا مفاد زیادہ اہم ہے۔ سلمان نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ان کے علاوہ بہت سارے دیگر پاکستانی بھی خاص طور پر ووٹ ڈالنے پاکستان آ رہے ہیں۔ مجھے سلمان، مظہر، جاوید اور طفیل کے اس جذبے نے بہت سکون دیا۔ اگر ہمارے ملک کے ہر ووٹر اور خاص طور پر ہر نوجوان کا یہ جذبہ جاگ اٹھا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک وہ حقیقی پاکستان ہوگا جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ اٹھارہ سے پچیس سال کی عمر کے ایک کروڑ 68 لاکھ سے زائد اور چھبیس سے تیس سال تک کے ایک کروڑ 27 لاکھ سے زائد ووٹرز جو کل تین کروڑ کے قریب بنتے ہیں اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ ملک کی تقدیر بدلنی ہے تو پھر پاکستان کو ایک نیا اور ترقی یافتہ پاکستان بنانے کیلئے کوئی رکاوٹ ہمارا راستہ نہیں روک سکتی۔ لیکن ہمارے سیاست دان جو ووٹ حاصل کرنے کیلئے نوجوانوں پر بہت زور دے رہے ہیں انہیں اس بات پر ضرور سوچنا چاہیے کہ تین کروڑ کے قریب قریب نوجوان ووٹرز میں ساڑھے سات لاکھ ووٹرز فاٹا کے دور دراز پہاڑی علاقوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ ساڑھے بارہ لاکھ نوجوان ووٹرز بلوچستان میں ہیں۔ سندھ کے 60 لاکھ نوجوان ووٹرز کی ایک بڑی تعداد سندھ کے گاؤں گوٹھوں میں بھی رہتی ہے۔ کے پی کے میں 45 لاکھ سے زائد نوجوانوں میں سے اکثر کے پاس کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے اور پنجاب کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد نوجوان بھی اس انتظار میں ہیں کہ ان کے ووٹ سے آنے والی نئی حکومت ان کیلئے کیا کرتی ہے۔ کیونکہ ہماری حکومتوں نے کالجز اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو تو کسی نہ کسی طریقے سے اپنی پالیسیوں میں شامل کیا ہے لیکن گاؤں گوٹھوں میں زندگی کی سہولتوں سے محروم اس نوجوان کے بارے میں کبھی کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی جنہیں لوگوں نے دہشت گردی تک کیلئے استعمال کر کے ہمیں ایک خطرناک پیغام دیا ہے۔ الیکشن میں کوئی بھی سیاسی جماعت کامیاب ہو، وہ ان گاؤں گوٹھوں کے نوجوانوں کو نظرانداز کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کر سکتے۔ بلکہ جاوید، مظہر، طفیل اور سلمان کا ووٹ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ان نوجوانوں کی تقدیر بدلنے کا بھی ووٹ ہے جو ہمیشہ نظرانداز ہوئے ہیں۔
تازہ ترین