پاکستان تحریک ِ انصاف پر تنقید اور اوبجیکشن (Objection) کا سلسلہ اپنی جگہ لیکن الیکشن ٹائم ہے یعنی ایکشن ٹائم اور زندگی میں ٹائمنگ ہی تو فیصلہ کن ہوتی ہے۔ یہی تووقت ہے کہ ”شر“ اور ”زر‘ ‘ کی لرزتی ہوئی دیواروں کو چند اور دھکے عطا کئے جائیں۔ پاکستان بالخصوص پنجاب کوہر عذاب سے نجات دلانے کے لئے دعاؤں اور موثر دواؤں کا استعمال جاری رکھاجائے۔
کینچوے پر نمک چھڑک دیں توکیاہوتاہے؟
جون جولائی کی دوپہر میں برف کا ڈھیر ریت پر بچھا دینے کا نتیجہ بتائیں؟
شدید گرمی میں موم کے پتلوں پر شیشے کا سائبان تان دیاجائے تو انجام کیسا ہوگا؟
نمک کی ڈلی ساون کی جھڑی میں رستے میں پڑی ہو تو اس کا مقدر کیا ہوگا؟
ن لیگ کو آج اسی قسم کی بے شمار سیچوئشنز کا سامنا ہے۔ وہ ایک دریا عبور کرتی ہے تو آگے جڑواں دریا اس کے منتظرہوتے ہیں۔ جیسے جیسے الیکشن کے قدموں کی آہٹ بڑھ رہی ہے، ان کی بوکھلاہٹ میں اضافہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ شیرکے نشان سے دوستی کشیدکرنے کا کام کوئی کودن ہی کرسکتا ہے لیکن چھوڑیئے کہ یہ ان کاذاتی فکری لیول اور معاملہ ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ پی ٹی آئی کی شیریں مزاری نے سیدھے سادھے بے ضرر بین الاقوامی رواج کے مطابق نوازشریف کو یہ معصوم سی دعوت دی کہ ٹی وی پر آ کرعمران خان کے ساتھ مباحثہ مذاکرہ کرلو تاکہ پاکستان کے عوام دونوں لیڈرز کا ”اصل“ جان سکیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ نارمل سی بات ہیپوری دنیا، مہذب دنیا کی سٹینڈرڈ پریکٹس ہے لیکن ن لیگ نے دوڑ لگا دی اور آئیں بائیں شائیں پر اتر آئی جوعملاً اپنی بدترین شکست کااعتراف ہے۔ عوام ”چیزے“ لے رہے ہیں، ٹھٹھا اڑا رہے ہیں کہ شیر بن شیر ن لیگئے بے تکے بہانے بنا رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس اپنے عزیز بھولو پہلوان کی طرح آسان حل تھا کہ… ”پہلے میرے چھوٹے سے کشتی لڑو، اسے چت کرلو تو پھرمیرے ساتھ مقابلہ کرنا…“ بہرحال ن لیگی لیڈر کا تحریکی لیڈر کے ساتھ ٹی وی مباحثہ سے بھاگنا مکمل نفسیاتی سرنڈر کی نشانی ہے۔
ن لیگ کی نفسیاتی شکست و ریخت کا دوسرا مظاہرہ ان کا یہ مسلسل ماتم ہے کہ زرداری صاحب تحریک ِانصاف کے ذریعہ ن لیگ کا صفایا کرنا چاہتے ہیں۔ کیسی بچگانہ منطق ہے کہ حریف کوغالب آتا دیکھ کر شریف کبھی جنرل پاشا کے پیچھے چھپتے ہیں کبھی زرداری کی ڈھال استعمال کرتے ہیں حالانکہ سچ یہ کہ پی پی پی کی پانچ سالہ حکومت کے پیچھے خود شریف برادران ہیں۔ ترمیم کرکے تیسری بار وزیراعظم بننے کی گنجائش پیدا کرنا آصف زرداری کا ان پر احسان تھا یا رشوت؟ یہ خود ہی بتا سکتے ہیں کہ اس ترمیم کا بینی فشری شریف برادران کے علاوہ اورکوئی نہیں۔ بی بی رخصت ہوچکی اور بلاول تو ابھی ایک بار بھی وزیراعظم نہیں بنا۔ آصف زرداری کے جونیئر پارٹنر تو یہ خود تھے اورہیں لیکن قسمت نے انہیں ان کبوتروں میں تبدیل کردیاجو بلی بلکہ بلے کو دیکھ کر آنکھیں موندنے کے بعد یہ فرض کرلیتے ہیں کہ محفوظ ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے ہی صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پنجاب پر ن لیگ کا اجارہ بری طرح ٹوٹ چکا۔ پنجاب پر ان کے پنجے کی گرفت نہ ہونے کے برابر جو چند دنوں میں تقریباً ختم سمجھو۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ ان کا مکمل صفایا ہو جائے گا لیکن یہ طے سمجھو کہ پنجاب کے راجوڑے سے ان کے مکمل صفائے کا عمل بھرپور انداز میں شروع ہوچکا۔ اس قسم کے خاندانی اقتدار کی پھٹنے پر آئی ہوئی ٹھساٹھس بھری بوری میں صرف ایک موری ہی کافی ہوتی ہے جسے مگورے میں تبدیل ہوتے وقت نہیں لگتا۔ یہ ساراعمل بند مٹھی سے ریت پھسلنے کے عمل سے گہری مماثلت و مشابہت رکھتا ہے۔ بند مٹھی میں ریت جب تک پوری طرح بند اور ”ان ٹیکٹ“ رہے تو ٹھیک لیکن اگرچند ذرے بھی کھسک جائیں تومٹھی خالی سمجھو… ”میاؤں“ کی مٹھیاں خالی سمجھو کہ یہی عمرانی آغاز کا منطقی انجام ہے۔
ن لیگی نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کو عروج پردیکھنا ہو تو انہیں بھٹو کی مضحکہ خیز نقالی کرتے دیکھو۔ کتنی بار لکھوں کہ مائیک جھنجوڑنے سے کوئی بھٹونہیں بن سکتااور ہتھیلی پر سر لٹکا کر آنکھیں بند کرکے تصویر بنوانے سے آپ علامہ اقبال نہیں ہوسکتے اور اک خاص کٹ کا کوٹ پہننے سے کوئی ماؤزے تنگ اور چواین لائی تو کیا کوئی ان کاچربہ بھی نہیں کہلا سکتا لیکن جو فرسٹریشن میں مبتلا ہو کر ”تمتماتے چہروں“ کو ”ٹمٹماتے چہرے‘ ‘ قرار دے رہے ہوں ان کاعلاج بہت مشکل ہے کہ یوں بھی نفسیاتی علاج بہت صبر آزما، پیچیدہ اور طویل ہوتا ہے۔ابھی تو ن لیگ نفل ادا کرے کہ کچھ فیصلے ٹکٹوں کے حوالے سے پی ٹی آئی غلط کر بیٹھی اور میاں اسلم اقبال کی طرح انہیں ”ری وزٹ“ بھی نہ کیاجاسکا لیکن پھر بھی ”دیکھی جا مولا دے رنگ“ کہ اللہ کے گھر دیر تو ہوسکتی ہے اندھیر نہیں اور اس کی رسی دراز توہوتی ہے لیکن لامتناہی نہیں۔ پنجاب نام کا راجواڑہ ”فرسٹ جنریشن“ راجاؤں اور راجکماروں کے ہاتھوں سے نکلا سمجھوکہ شعور فتور کوپہچان چکا۔حصوں بخروں میں اِدھراُدھر سے باتیں سننے کاوہ امپیکٹ نہیں ہوتا جتنا اس صورت میں کہ حقائق یک جا کرکے کوئی یکمشت تمام تر اعدادوشمار آپ کے سامنے رکھ دے۔ میرے ساتھ چند روزپہلے یہ ہاتھ اس طرح ہوا کہ کسی نے بذریعہ ڈاک مجھے ایک درمیانے سائز کارنگین سٹکر بھجوایا ہے جس میں میاں نواز شریف کی تصویر درمیان میں اور اس کے اردگرد ان کے خاندان کے ان افراد کی تصویریں ہیں جو پوری طرح سیاست میں ملوث ہیں۔ تو یہ سب کیا ہے؟ پورا پنجاب پندرہ اہل خانہ کے پاس یرغمال؟ تو یہ حال ہے مستقبل نہیں۔ پنجاب کوہرطرف سے گھیرنے اور ذاتی جاگیر… ہمیشہ کے لئے خاندانی جاگیر بنانے کی حکمت عملی لیکن حاکم اعلیٰ بھی کہیں اور … حکمت اعلیٰ بھی کہیں اور… ”بے شک میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا“ اوربے شک چراغ بجھنے سے پہلے بھڑکتا اور جانور ذبح ہونے کے بعد بہت پھڑکتا ہے۔ سیاسی صنعتکار و اجارہ دار جتنا چاہیں بھڑک لیں… جس قدر چاہیں پھڑک لیں کہ ان کا عشروں پرمحیط وہ ڈرامہ اپنے ان آخری مناظر کی طرف رواں دواں ہے جسے جنرل جیلانی نے لکھااور جنرل ضیاالحق نے ڈائریکٹ اور پروڈیوس کیا تھا۔ن لیگ کی نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کے بعد دیگراقسام کی ٹوٹ پھوٹ کاعمل بھی عبرتناک اور قابل دید ہوگا۔ انشاء اللہ! اور موجودہ الیکشن ان کے سیاسی تابوت میں سیکنڈ لاسٹ کیل۔ آخر پر صرف اتنا کہ نوازشریف کو ٹی وی مباحثہ کی دعوت کے جواب میں ”ترجمان شریف“ کایہ کہنا کہ عمران پہلے سیاسی اخلاقیات سیکھے تو کیا واقعی بھول گئے کہ تم لوگوں نے بینظیربھٹو اور ماں کی عمر والی بیگم بھٹو کے خلاف کتنی غلیظ، قابل نفرت اور شرمناک اشتہاری و تقریری مہم چلائی تھی؟مکافات ِعمل کا انتظارکرو……