• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی کی حکومتوں پر موجودہ قیادت کا ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے بھاری قرضے لے کر قومی خزانے کو سخت نقصان پہنچایا جبکہ سابق حکمراں جماعت کے ذمہ دار جواباً یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ یہ قرضے ملک میں بجلی کی پیداوار میں ہزاروں میگاواٹ کے اضافے‘ ہزاروں کلومیٹر طویل شاہراہوں کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی کاموں میں استعمال کئے گئے جس کی تفصیلات ریکارڈ پر ہیں۔ تاہم وزارتِ خزانہ کی دستاویزات کے مطابق موجودہ دور میں قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا سلسلہ ماضی سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے جاری ہے حالانکہ ترقیاتی اخراجات میں بھاری کٹوتیاں ہو چکی ہیں۔ تازہ ترین اعداد وشمار کی رو سے ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ پچھلے دو برسوں میں 11300ارب روپے کے خطیر اضافے کے بعد 36300ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ اس رقم میں سعودی عرب اورامارات سے لیا گیا قرضہ اور واجبات شامل نہیں۔ مالی سال 2017-18میں پاکستان کے مجموعی قرضے 25000ارب روپے تھے جو اگست 2020تک بڑھ کر 36300ارب روپے یعنی جی ڈی پی کا 87فیصد ہوگئے۔ وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق دوبرسوں میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 4600ارب روپے اور مقامی قرضوں میں 6800ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ 2007-08میں پاکستان کا مجموعی قرضہ 6100ارب روپے یعنی جی ڈی پی کا 57.6فیصد تھا۔ 2012-13میں 14300ارب روپے جی ڈی پی کے لحاظ سے 63.8فیصد اور 2017-18میں 25000ارب روپے قرضہ تھا جو جی ڈی پی کا 72.1فیصد بنتا ہے۔ دو سال میں قرضوں کامجموعی قومی پیداوار کے 87فی صد تک پہنچ جانا سنگین خطرے کی گھنٹی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ موجودہ معاشی حکمت کار قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتائیں کہ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ان کا روڈ میپ کیا ہے اور اس پر کب تک عملدرآمد ہو سکے گا۔

تازہ ترین