• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے مسلم دشمنی اور تعصب کی تمام حدیں پار کی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پر بھی اتنا گر چکا ہے کہ دھوکے سے پاکستان سے ہندو برادری کے افراد کو بلا کر قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اخلاقی دیوالیہ پن کے شکار بھارت میں نہ مسلمان محفوظ ہیں، نہ دیگر اقلیتیں۔ حتیٰ کہ ذات پات کو بنیاد بنا کر بعض ہندو افراد کی زندگی کو بھی جہنم بنا دیا گیا ہے۔ اس وقت تو بھارت میں آر ایس ایس جیسی دہشت گرد تنظیم کے بدمعاشوں اور غنڈوں کا راج ہے۔ آر ایس ایس کے ان دہشتگرد کارکنوں کے ہاتھوں سے نہ مسلمان محفوظ ہیں، نہ اقلیتیں اور نہ ہی نچلی ذات کے ہندوئوں کی جان و مال محفوظ ہیں۔ بھارت میں سکھوں کے ساتھ ماضی میں امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کا واقعہ کون بھول سکتا ہے۔ حال ہی میں بہار اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی شہریت ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ نام نہاد سیکولر بھارت میں عیسائیوں کے گرجا گھروں کو جلایا گیا۔ غیرملکی، امریکی اور یورپی سیاح خواتین کو نہ صرف لوٹا جاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی تسلسل سے جاری ہیں۔

اب حالیہ چند واقعات میں بھارت کا مکروہ اور بدنما چہرہ مزید بےنقاب ہو گیا ہے۔ جن سے واضح ہو گیا ہے کہ تعصب کے ساتھ ساتھ بھارت بدترین اخلاقی گراوٹ کا بھی تیزی سے شکار ہو رہا ہے۔ دھوکہ دہی سے پاکستان سے ہندو برادری کے افراد کو بھارت بلایاجاتا ہے، وہاں ان کو قتل کیا جاتا ہے اور زندہ بچ جانے والے انتہائی کسمپرسی کے عالم میں بدترین زندگی گزارتے ہیں۔ درحقیقت بھارت میں انسانی حقوق کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ تقریباً پانچ سال قبل پاکستانی ہندو شہریوں کو بھارت میں آباد کاری اور خوشحال زندگی گزارنے کے نام پر ورغلایا گیا اور ویزہ ایجنٹ کے ذریعے بھارت بلایا گیا۔ ابتدائی طور پر ہندو خاندانوں کو ان کے مقدس مقامات کی یاترا کے ویزے دیے گئے۔ جب یہ افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے وہاں پہنچے تو ان کو سرکاری تحویل میں لیا گیا۔ ہریدوار جو ہندوئوں کے لئے مقدس شہر ہے۔ جہاں لے جانے کا ان پاکستانی ہندوئوں کو لالچ دیا گیا تھا وہاں جانے سے منع کیا گیا اور پھر دیگر مقامات کی یاترا کروانے کے بجائے پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کردیا گیا۔

گھوٹکی سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو خاندان کے سربراہ نانک رام کے مطابق اس خاندان کے آٹھ افراد کو بھی ایک ویزہ ایجنٹ کے ذریعے دھوکے سے بھارت بلایا گیا تھا لیکن وہاں جا کر بھارت سرکار نے ان کو ہریدوار کی یاترا سے منع کیا اور دیگر پاکستانی ہندوئوں کی طرح اس خاندان کو بھی پناہ گزین کیمپ میں رکھ دیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ان پناہ گزین کیمپوں میں زندگی کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ اس لئے ان کیمپوں کا حال نازی کیمپوں سے مختلف نہیں ہے۔ ان کیمپوں میں نہ تو واش رومز کی سہولت موجود ہے نہ بجلی نہ پانی ہے اور اور نہ ہی کھانے پینے کی دستیابی ہے۔ جن لوگوں کو ان نام نہاد پناہ گزین کیمپوں میں رکھا جاتا ہے وہ زندہ رہنے کے لئے مزدوری کرتے ہیں۔ پاکستان سے بلا کر ہندو افراد کو بھی ان ہی کیمپوں میں رکھا گیا۔ماہ رواں ستمبر 2020میں واپس پاکستان آنیوالے ان ہندو افراد کے مطابق دھوکے سے بلائے گئے دیگر پاکستانیوں کو بھی ان کیمپوں میں رکھا گیا ہے اور کئی ہندو خاندان اب بھی ان کیمپوں میں موجود ہیں جو پاکستان واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔

پاکستان کے ہندو خاندانوں کو ورغلا کر بھارت بلانے کے بعد جو وہاں ان کے ساتھ ہوا وہ حالات وہاں سے ایک سال بعد واپس پاکستان آنیوالے دو خاندانوں کے چودہ افراد نے بتائے۔ ان افراد کے مطابق مودی سرکار نے ان کو سبز باغ دکھائے اور بہتر زندگی کا وعدہ کر کے بلایا لیکن وہاں جا کر ان کو معلوم ہوا کہ وہ سب دھوکہ تھا۔ وہاں سے بہتر زندگی تو وہ پاکستان میں گزارتے تھے جہاں ان کو ہر قسم کی مذہبی اور معاشی آزادی تھی۔ پاکستان میں مسلمان ان کی مذہبی تقریبات میں بھی شرکت کرتے تھے۔ ذات پات کی کوئی قید نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ نریندر مودی ایک جھوٹا، متعصب اور تنگ نظر انسان ہے۔وہاں بڑی تعداد میں بےگناہ مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں کے ساتھ نہایت انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ دنیا کو مودی سرکار کے ظالمانہ اور غیرانسانی رویوں کے خلاف حرکت میں آنا چاہئے جبکہ پاکستان میں ہندوئوں اور دیگر تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں جس کی مثالیں موجود ہیں۔ پشپا نامی ہندو خاتون سندھ پولیس افسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ کرشنا کوہلی پاکستان سینٹ کی رکن ہیں۔ان کے علاوہ بھی متعدد ہندو افراد سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔

سب سے اندوہناک واقعہ پاکستان سے ہجرت کرنے والے ایک ہندو خاندان کے ساتھ بھارت میں پیش آیا۔ بارہ افراد پر مشتمل اس خاندان کو بھی بھارتی شہر جودھ پور کے کیمپ میں رکھا گیا تھا۔یہ خاندان 2015میں بھارت منتقل ہوا تھا۔ دھوکے سے بلائے گئے اس خاندان کے گیارہ افراد کو گزشتہ ماہ اگست میں قتل کیا گیا۔ باہر رہنے والا صرف ایک فرد زندہ بچ سکا۔ قتل کا واقعہ مودی حکومت کے چہرے پر ایک اور بدنما داغ ہے۔ اس واقعہ کا مقدمہ متاثرہ خاندان کی ایک لڑکی شریمتی مکھی نے سندھ کے شہر سانگھڑ میں درج کروایا ہے۔ مقدمہ میں بھارتی حکمران جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس کو نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمہ میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مدعی مقدمہ نے حکومت پاکستان سے بھی درخواست کی ہے کہ مقدمہ کے لئے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کے لئےمدد کرے۔ موجودہ نازی ازم کی پیروکار مودی سرکار کے خلاف دنیا کب خواب غفلت سے جاگے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین